مچھلی کا کانٹا گلے میں اٹک جائے تو پھر کیا کریں؟

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2021
غلطی سے کانٹنے کو نگلنا بہت عام ہوتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو
غلطی سے کانٹنے کو نگلنا بہت عام ہوتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو

غلطی سے مچھلی کے کانٹے کو نگل لینا بہت عام ہوتا ہے۔

مچھلی کی یہ ہڈیاں بالخصوص کانٹوں کی شکل کی ہڈیاں اتنی چھوٹی ہیں کہ چباتے ہوئے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

کانٹوں کے تیز دھار کونے اور مختلف شکلیں یا ساخت کی وجہ سے دیگر غذاؤں کے مقابلے میں ان کا گلے میں پھنسنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اگر کوئی کانٹا گلے میں پھنس جائے تو یہ بہت تکلیف دہ اور خوفزدہ کردینے والا تجربہ ہوسکتا ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ ایسے بہت سے عام طریقے موجود ہیں جن سے گلے میں پھنس جانے والے مچھلی کے کانٹے کو ہٹانا ممکن ہے۔

کانٹا پھنسنے پر کیا احساس ہوتا ہے؟

اگر گلے میں مچھلی کا کانٹا پھنس جائے تو اس کی موجودگی کے احساس ہونے یا نہ ہونے پر بھی درج ذیل علامات سامنے آتی ہیں۔

گلے میں سنسناہٹ یا کچھ چبھنے کا احساس، گلے میں شددی تکلیف، گلے یا گردن کا نرم ہونا، کھانسی، کوئی چیز نگلنا مشکل ہونا یا نگلتے ہوئے تکلیف اور خون آنا۔

ویسے تو مچھلی کے کانٹے کو نگل لینا بہت کم ہی کسی ایمرجنسی صورتحال کا باعث ہوتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنے سے پہلے نیچے دیئے گئے ٹوٹکوں کو آزما کر اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

مارش میلو

سننے میں عجیب لگے گا مگر ایک بڑا اور نرم چپچپا مارش میلو گلے سے کانٹے کو نکالنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

اس کے لیے مارش میلو کو اتنا چبائیں کہ وہ نرم ہوجائے اور پھر نگل لیں، اس کا چپچپا پن کانٹے کو اپنے ساتھ کھینچ کر معدے میں پہنچا دے گا۔

زیتون کا تیل

زیتون کا تیل ایک قدرتی لبریکنٹ (چکناہٹ والی چیز) ہے، اگر مچھلی کا کانٹا گلے میں اٹک گیا ہے تو ایک یا 2 کھانے کے چمچ زیتون کے تیل کو نگلنے کا طریقہ آزمائیں۔

یہ تیل گلے کے اطراف اور کانٹے میں کوٹنگ بنا دے گا جس سے اس کو نگل کر معدے میں پہنچانا یا کھانس کر نکالنا آسان ہوجائے گا۔

کھانسی

اکثر مچھلی کے کانٹے گلے کی پشت میں ٹانسلز کے ارگرد اٹکتے ہیں، زبردستی چند مرتبہ کھانسنا انہیں اپنی جگہ سے ہلانے کے لیے کافی ثابت ہوسکتا ہے۔

کیلے

مارش میلو کی طرح کیلے بھی گلے میں پھنسے کانٹے کو معدے میں پہنچانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

کیلے کا ایک بڑا حصہ منہ میں کم از کم ایک منٹ تک رکھیں، جس سے لعاب دہن کی کچھ مقدار جمع ہوگی اور پھر اسے نگل لیں۔

ڈبل روٹی اور پانی

ڈبل روٹی کو پانی میں ایک منٹ کے لیے ڈبوئیں، پھر اس کا ایک بڑا نوالہ سالم ہی نگل لیں، اس ٹکڑے سے مچھلی کے کانٹے پر وزن بڑھے گا اور وہ معدے کی جانب چلا جائے گا۔

سوڈا

برسوں سے کچھ طبی ماہرین کی جانب سے کولا اور دیگر کاربونیٹڈ مشروبات کو گلے میں پھنس جانے والی غذاؤں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

جب سوڈا معدے میں داخل ہوتا ہے تو وہ گیسوں کا اخراج کرتا ہے، یہ گیسیں کانٹے کو ٹکڑے کرنے میں مدد کرتی ہیں اور اتنا دباؤ پیدا کرتی ہیں جو اسے اپنی جگہ سے ہٹانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

سرکہ

سرکے میں تیزابیت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کو پینا بھی مچھلی کے کانٹے کو گھلانے میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتا ہے، جس سے وہ نرم ہوجاتا ہے اور نگلنا آسان ہوجاتا ہے۔

اس مقصد کے لیے ایک کپ پانی میں کھانے کے 2 چمچ سرکے کو ملائیں یا ایک کھانے کا چمچ سرکہ براہ راست پی لیں۔

اس حوالے سے سیب کا سرکہ زیادہ اچھا آپشن ہوتا ہے جس کا ذائقہ زیادہ برا نہیں ہوتا بالخصوص شہد کے ساتھ۔

ڈبل روٹی اور پینیٹ بٹر

پینیٹ بٹر لگی ڈبلی روٹی مچھلی کے کانٹے کو معدے میں پہنچانے کا کام کرسکتی ہے۔

اس مقصد کے لیے روٹی اور پینیٹ بٹر کا ایک بڑا نوالہ لیں اور کچھ دیر منہ میں رکھیں تاکہ وہ نمی اکٹھی کرسکے اور پھر نگل لیں، یہ یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس پانی موجود ہو۔

کچھ نہ کریں

اکثر لوگ ڈاکٹروں کے پاس اس یقین کے ساتھ جاتے ہیں کہ مچھلی کا ایک کانٹا گلے میں اٹک گیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔

مچھلی کے کانٹے تیز دھار کے ہوتے ہیں اور گلے کی پشت پر خراشیں ڈال سکتے ہیں، کئی بار آپ کو خراش کا احساس ہوتا ہے جبکہ کانٹا معدے میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔

اگر سانس لینے میں کوئی مسئلہ نہیں تو کچھ وقت تک کوئی اقدام نہ کریں مگر سونے سے قبل یہ جان لیں کہ گلا کلیئر ہے یا نہیں۔

اگر سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر یا ہسپتال کا رخ کریں۔

ڈاکٹر کے پاس کب جائیں

کئی بار مچھلی کا ایک کانٹا اپنی جگہ سے ہٹتا نہیں اور ایسی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

اگر یہ کانٹا غذائی نالی میں کہیں پھنس جائے تو پھر یہ حقیقی خطرہ ہوسکتا ہے جس سے مختلف پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اگر تکلیف بہت زیادہ ہو یا کانٹا کئی دن سے ایک ہی جگہ تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں، جبکہ سینے میں تکلیف، سوجن، خرخراہٹ اور کھانا پینا ناممکن ہونے پر فوری طبی امداد حاصل کریں۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں