سعودی عرب کے دفاع کی ضرورت پڑی تو پاکستان ساتھ کھڑا ہوگا، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2021
وزیراعظم عمران خان نے ریاض میں سعودی سرمایہ کاری فورم سے خطاب کیا—فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے ریاض میں سعودی سرمایہ کاری فورم سے خطاب کیا—فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے ریاض میں سعودی سرمایہ کاری فورم سے خطاب کیا—فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے ریاض میں سعودی سرمایہ کاری فورم سے خطاب کیا—فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے سعودی کاروباری برادری کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور کہا کہ سعودی عرب کی سلامتی کو جب بھی خطرہ ہوگا تو حفاظت کے لیے پاکستان ساتھ کھڑا ہوگا۔

ریاض میں سعودی انوسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات دیگر تمام تعلقات سے بالاتر ہیں کیونکہ یہ عوام کے عوام سے تعلقات ہیں، پاکستان میں جو بھی حکومت آتی ہے اس کے سعودی عرب کے ساتھ خصوصی تعلقات ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم عمران خان 3 روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے

انہوں نے کہا کہ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ 2 مقدس مساجد ہیں اور ہم سعودی عرب سے بندھے ہوئے، دوسری وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ مشکل ترین وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، جس کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انسان اس کو یاد نہیں رکھتا جس نے اچھے وقت میں ساتھ دیا ہو لیکن مشکل وقت میں ساتھ دینے والے کو بھلایا نہیں جاتا۔

'سعودی عرب کے دفاع کے لیے ساتھ کھڑے ہوں گے'

عمران خان نے کہا کہ سعودی عرب کو جب کبھی سلامتی کا خطرہ ہوگا تو باقی دنیا کے ساتھ کیا ہوتا ہے میں نہیں جانتا لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی حفاظت کے لیے پاکستان آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں 30 برس سے سعودی عرب آرہا ہوں اور میں نے ولی عہد کی صورت میں بہترین قیادت کے تحت تبدیلی دیکھی ہے، وہ سعودی عرب کے مستقبل کی تبدیلی کا عزم رکھتے ہیں اور پاکستان بھی تبدیل ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وزیر خزانہ نے نشان دہی کی ہے کہ 60 کی دہائی میں پاکستان ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا، پاکستان وہ ملک تھا جہاں تیز ترین صنعت کاری ہورہی تھی۔

پاکستان کی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ادارے تھے جو ایشیا کے تمام اداروں سے مضبوط تھے، ہماری قومی ایئرلائن پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی اور اس نے مزید 5،6 ایئر لائنز بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شرح نمو درست سمت جارہی تھی لیکن بدقسمتی سے جیسے ملکوں کی تاریخ میں ہوتا ہے راستہ تبدیل ہوجاتا ہے تو ہم بھی اپنا راستہ کھو بیٹھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب، پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے تصفیے کیلئے مذاکرات پر زور

انہوں نے کہا کہ اداروں کو قومیانے کی پالیسی نے ہماری شرح نمو کو ختم کردیا اور اب ہم ماضی کی طرح ہیں جہاں کاروبار کھل رہا ہے، صنعتوں کو مراعات دے رہے ہیں اور ملک کی صلاحیت کو سامنے لا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں اکثریت 30 سال سے کم عمر افراد کی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ترقی کے شان دار مواقع ہیں، ترقی کا اہم ترین عنصر نوجوان ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت ہے، دنیا کے دو بڑی معیشتیں ہمارے پڑوس میں ہیں، ہمارے پاس افغانستان سے ہوتے ہوئے پورا وسطی ایشیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح چین کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں لیکن ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے ہیں۔

'کرکٹ میں بھارت کو شکست کے بعدتعلقات پر بات کرنے کا صحیح وقت نہیں'

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شان دار فتح کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ گزشتہ شب کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم کی جانب سے پچھاڑنے کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے حوالے سے بات کرنے کا صحیح وقت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے درمیان صرف ایک مسئلہ ہے، مسئلہ کشمیر، ہم دو مہذب ہمسایے اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں، یہ سب انسانی حقوق اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد میں 70 یا 72 سال قبل دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان کو حقوق دیے گئے تو ہمارے درمیان کوئی اور مسئلہ نہیں ہے، دونوں ممالک مہذب ہمسائیوں کی طرح رہ سکتے ہیں لیکن اس کے فائدے تصور کریں، بھارت کو پاکستان سے وسطی ایشیا تک رسائی ہوگی اور پھر پاکستان کو ان دو بڑی مارکیٹس تک رسائی ہے۔

'سعودی عرب کے سرمایہ کار فائدہ اٹھائیں'

عمران خان نے کہا کہ سعودی سرمایہ کاروں پر زور دیتا ہوں کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ہیں اور تبدیل ہوتے ہیں، جس طرح کاروباری برادری جانتی ہے کہ کامیاب ترین کاروباری افراد مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں اور رسک لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ مستقبل کی طرف دیکھیں گے تو پاکستان اس اسٹریٹجک سطح پر ہے جہاں ہر طرف دروازے کھلتے ہیں اور چاہتے ہیں ہمارے سعودی بھائی پاکستان کی اس پوزیشن سے فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ دو منصوبوں کی نشان دہی کی گئی ہے، پہلا راوی سٹی ہے جو ہم مکمل طور پر ایک نیا شہر آباد کرنا چاہتے ہیں اور اس پر کام کر رہا ہوں، جہاں سرمایہ کار آرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم عمران جدہ پہنچ گئے، سعودی ولی عہد سے دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال

وزیراعظم نے کہا کہ یہ بہترین وقت ہے کہ راوی سٹی کے منصوبے میں شامل ہوجائیں جو ایک نیا شہر ہے، پھر مرکزی کاروباری اضلاع ہیں جو لاہور کے قلب میں واقع ہیں، جہاں کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے اور وہاں سرمایہ کاری کا بہترین موقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اور منصوبہ ہے جو بہت دلچسپ ہے جس میں 300 ہزار ایکڑ زرخیز اراضی ہے لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے زراعت سے محروم ہے حالانکہ دریائے سندھ کے ساتھ ہے، پانی کی دستیابی ہے لیکن ہمیں اس توانائی کی ضرورت ہے تاکہ ہم پانی کو مذکورہ زمین تک پہنچائیں تو یہ علاقہ زراعت کے قابل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ سعودی عرب فوڈ سیکیورٹی پر دلچسپی رکھتی ہے، یہ زرمین دستیا ب ہے، وزرا اس پر بات کر رہے تھے اور اس سے دونوں ممالک کے لیے فائدہ ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات مختلف سطح پر جائیں گے، ایک ایسی سطح جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ فوائد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے لیے مختلف ہوں گے، اسی لیے اگر ہم مل کر کام کرتے ہیں تو دونوں ممالک کے لیے فائدہ ہوگا۔

وزیراعظم کا مڈل ایسٹ گرین انیشیٹیو سربراہی اجلاس سے خطاب

ریاض میں ‘مڈل ایسٹ گرین انیشیٹیو’ سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا میں 10 فیصد ممالک 80 فیصد کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں اور پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بدقسمتی سے دنیا کے 10خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران ہمیں 152 انتہائی خطرناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے 8.3 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا اور مستقبل میں اس حوالے سے اقدامات کی لاگت 6 سے 14 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی جانب سے کسی کارروائی سے پہلے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بحیثیت ملک اپنی بقا کے لیے جو ممکن ہو کریں گے اور ہم 2030 تک توانائی کا 60 فیصد شفاف توانائی میں تبدیل کریں گے۔

'2023 تک 30 فیصد ٹرانسپورٹ الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیل کریں گے'

پاکستان کے فیصلوں سےآگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 30 فیصد پرانا ٹرانسپورٹ 2030 تک الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا اور ہم پہلے 2400 میگاواٹ کوئلے کے منصوبوں کو 3700 میگاواٹ پن بجلی کے منصوبوں پر منتقل کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم پرعزم ہیں کہ پاکستان میں کوئلے کا کوئی نیا منصوبہ نہیں ہوگا اور ہماری توجہ قدرتی وسائل کی بنیاد پر حل نکالنے پر ہے، ہم نے 10 ارب درخت اگانے کا منصوبہ شروع کرچکے ہیں اور 2.5 ارب درخت لگا چکے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں مینگرو بن رہے ہیں، ہمار منصوبہ ہے کہ 2023 تک ایک ارب مینگرو کے درخت لگائیں گے۔

'نیشنل پارکس میں 50 فیصد اضافہ کیا'

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کے دوران 50 فیصد نیشنل پارکس میں اضافہ کیا ہے، ماحول کی بہتری کے حوالے سے روزگار میں 85 ہزار روزگار کے مواقع پیدا کیے اور اگلے سال یہ تعداد 20 لاکھ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی سطح بڑھانے کے لیے ایک اور بڑا منصوبہ ہے، عالمی بینک نے پاکستان کو ترقیاتی، مالیاتی اور ماحول دوست منصوبوں میں تبدیلی کے حوالے سے پہلے نمبر پر رکھا ہے اور 44 فیصد تمام فنانسنگ ماحول دوست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہائیڈروالیکٹرک پاور کے لیے 500 ملین ڈالرز مختص کیے ہیں، دوسرا بلیوبونڈز جو مینگروز کی قدرتی ویلیشن ہے اور اس کے لیےعالمی بینک کا تعاون کر رہا ہے، تیسرا قدرتی بونڈز ہے، پاکستان عالمی سطح پر قرض کی ادائیگی میں نرمی کو جوڑتے ہوئے اس پر کام کر رہا ہے۔

'موسمیاتی تبدیلی کا بحران 20 برس قبل نظر آرہا تھا'

ان کا کہنا تھا کہ چوتھے نمبر توانائی کو دوسرے ذرائع میں منتقل کرنے کا طریقہ کار جو کوئلہ سے سبز میں تبدیل کرنا شامل ہے، انسانیت کو ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، بدقسمتی سے یہ بحران 20 سال قبل نظر آرہا تھا لیکن ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ درجہ حرارت بڑھے گا اور کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ اس سے متاثر ہوں گے جب آپ قدرت کے اس توازن کو خراب کرتے ہیں تو ہمیشہ اس کے نتائج ہوتے ہیں لیکن کسی نے ان نتائج پر غور نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برس کے دوران ہم نے دیکھا کہ سائبیریا، کیلیفورنیا اور آسٹریلیا میں غیرمتوقع آتشزدگی ہوئی، غیرمتوقع سیلاب آئے، پاکستان اور سلسلہ قراقرم میں ہم نے گلیشئرز تیزی سے پگھلتے دیکھا اور آنے والوں میں ایسا نہ ہو کہ ہمیں پانی کی شدید قلت ہو، دریا ہمارے شہریوں کے لیے ناکافی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت، ازبکستان، کرغیزستان سمیت خطے کے اکثر ممالک گلیشیئر کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے سربراہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے پر سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہم سب مل کر اس چیلنج کو مزید سنجیدگی سے لیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں