کووڈ کے طویل المعیاد اثرات سے زندگی کس حد تک متاثر ہوسکتی ہے؟

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ایسے افراد جن کو کورونا وائرس کو شکست دینے کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے، ان میں علامات کا تسلسل کم از کم ایک سال تک برقرار رہ سکتا ہے، جس کے باعث ان کی کام کرنے کی صلاحیت، جسمانی سرگرمیوں شرکت، دوسروں سے بات چیت، دماغی افعال اور زندگی کے مجموعی معیار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم کے ماہرین نے پہلی مرتبہ لانگ کووڈ کے مریضوں پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی اور ایسے عناصر کی تفصیلات بیان کیں جن کی وجہ سے علامات کی شدت بڑھ سکتی ہے۔

تحقیق کے لیے مارچ 2020 سے مارچ 2021 کے دوران ماؤنٹ سینائی کے پوسٹ کووڈ کیئر سینٹر میں زیر علاج رہنے والے 156 مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا۔

ان مریضوں نے کووڈ کا سامنا کیا تھا اور تحقیق کے وقت تک ویکسینیشن نہیں کرائی تھی۔

ان افراد سے بیماری کے پہلے دن سے لے کر 351 دن بعد تک علامات کے تسلسل اور ان کی شدت بڑھانے والے عناصر سے متعلق سرویز فارم بھروائے گئے۔

انہیں کہا گیا کہ وہ تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، معتدل اور سخت جسمانی سرگرمیوں کو مکمل کرنے کی اہلیت، دماغی افعال، معیار زندگی سے جڑی صحت، انزائٹی، ڈپریشن، معذوری اور کووڈ سے قبل اور بعد میں ملازمت کی حیثیت کی تمام تر تفصیلات بیان کرنے کا کہا گیا۔

سب سے زیادہ عام علامت تھکاوٹ تھی جس کا سامنا 82 فیصد مریضوں کو ہوا، جس کے بعد دماغی دھند (67 فیصد)، سردرد (60 فیصد)، نیند متاثر ہونے (59 فیصد) اور سر چکرانے (54 فیصد) قابل ذکر تھیں۔

محققین نے دماغی تنزلی کی رپورٹ کی شدت کا زیادہ تفصیلی جائزہ لیا اور دریافت ہوا کہ 60 فیصد سے زیادہ لانگ کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں کسی حد تک متاثر ہوئے ہیں، جیسے مختصر مدت کی یادداشت کمزور ہوئی، ناموں کو یاد رکھنے میں مشکلات، فیصلہ سازی اور روزمرہ کی منصوبہ بندی کے مسائل کا سامنا ہوا۔

135 افراد نے کووڈ سے قبل اور بعد میں ملازمت کے حوالے سے سوالات کے جواب دیئے اور دریافت ہوا کہ کووڈ سے قبل 102 افراد کل وقتی ملازمت کررہے تھے مگر بیماری کے بعد یہ تعداد 55 رہ گئی۔

مزید گہرائی میں جانے پر ماہرین نے ان ممکنہ عناصر کو شناخت کیا جو لانگ کووڈ کی علامات کی شدت بدتر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

ان میں سب سے بڑا عنصر جسمانی سرگرمیوں کی سطح گھٹ جانا تھا جس کو 86 فیصد مریضوں نے رپورٹ کیا جس کے بعد تناؤ (69 فیصد)، ڈی ہائیڈریشن (49 فیصد) اور موسمیاتی تبدیلیاں (37 فیصد) قابل ذکر ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف فزیکل اینڈ ری ہیبیلیٹشن میڈیسین میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل ماؤنٹ سینائی کے ہی ایشکن اسکول آف میڈیسین کی ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی جسے ذہنی دھند یا برین فوگ بھی کہا جاتا ہے، کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا، ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔

تحقیق کے مطابق اگرچہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

اسی تحقیقی ٹیم نے اپریل 2021 میں ایک الگ تحقیق میں بتایا تھا کہ کووڈ کے ہر 3 میں سے ایک مریض کو ذہنی صحت سے جڑی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں اپریل 2020 سے مئی 2021 تک 740 کووڈ مریضوں کے ڈیٹا کو شامل کیا گیا تھا جن میں ڈیمینشیا کی تاریخ نہیں تھی، ان افراد کی اوسط عمر 49 سال تھی۔

ہر مریض کے دماغی افعال کا تجزیہ کیا گیا تھا اور محققین نے دماغی تنزلی کی شرح کی جانچ پڑتال کی۔

محققین نے دریافت کی کہ 15 فیصد کو بات چیت کی روانی میں مسائل کا سامنا تھا، 16 فیصد کو دماغ کے ایگزیکٹیو فنکشننگ کے مسائل کا سامنا ہوا، 18 فیصد کی دماغی تجزیہ کرنے کی رفتار سست ہوگئی، 20 فیصد کی فہرستیں تجزیہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی، 23 فیصد کی یادداشت پر اثرات مرتب ہوئے جبکہ 24 فیصد کو دیگر ذہنی مسائل کا سامنا ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں توجہ، زبان کی روانی اور یادداشت جیسے افعال میں تنزلی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

مگر ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے اور تحقیق میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والوں میں یہ شرح 37 فیصد اور زیادہ بیمار نہ ہونے والے افراد میں یہ شرح 16 فیصد تک ریکارڈ ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں