پاکستان اور افغانستان کے درمیان آج ایک اہم کھیلا جانا ہے، اور ہمیں امید یہی ہے کہ قومی ٹیم اس میچ میں بھی اپنے جیت کے سفر کو جاری رکھے گی۔

اس میچ میں اگر کسی چیز کی اہمیت سب سے زیادہ ہے تو وہ ٹاس کی ہے، کیونکہ اس ورلڈ کپ میں دبئی کرکٹ اسیڈٹیم کے میدان پر اب تک 4 میچ کھیلے گئے ہیں اور ہر مرتبہ وہی ٹیم کامیاب ہوئی ہے جس نے ٹاس جیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹاس جیتنے والی ٹیم نے ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا ہے۔

اس لیے آج جو ٹیم بھی ٹاس جیتے گی، اس کا پلڑا یقیناً بھاری ہوگا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان میچ کے لیے قومی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا جارہا ہے، لیکن صورتحال اتنی آسان نہیں ہے۔

افغانستان کے پاس ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو کوئی بھی سرپرائز دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہٰذا پاکستان کو اس میچ میں اپنی فتوحات کو ایک طرف رکھ کر سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔

مزید جانیے: ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان اور افغانستان کا ٹاکرا آج شام ہوگا

اس میچ سے متعلق اگر دونوں ٹیموں کا جائزہ لیا جائے بات سمجھنے میں مزید آسانی ہوجائے گی۔

پاکستان

بیٹنگ

پاکستان کے لیے اس وقت ان کی اوپننگ جوڑی سب سے اہمیت کی حامل ہے، اگر اس میچ میں بھی کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان اچھی پارٹنرشپ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ قومی ٹیم کے لیے خوش آئند ہوگا۔

لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا، اور ابتدائی طور پر ہماری کچھ وکٹیں گر جاتی ہیں تو صورتحال کچھ خراب ہوسکتی ہے، کیونکہ ہم نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے مڈل آرڈر کو لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا ہے۔

اس لیے افغانستان کو اگر میچ میں اپنی گرفت مضبوط کرنی ہے تو اسے اپنی تمام تر توجہ پاکستانی اوپنرز پر رکھنی ہوگی، اگر وہ یہاں کچھ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ضرور ان کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔

باؤلنگ

اس شعبے سے متعلق اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کسی ایک باؤلر پر انحصار نہیں کررہا۔ بھارت کے خلاف شاہین آفریدی نے وکٹیں حاصل کیں تو نیوزی لینڈ کے خلاف حارث رؤف نے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کو سنبھال لیا۔ جبکہ اسپنرز نے بھی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

یہاں ہمیں صرف حسن علی کی فکر ہونی چاہے، کیونکہ وہ دونوں ہی میچ میں مہنگے ثابت ہوئے ہیں

افغانستان

بیٹنگ

پاکستان کی طرح افغانستان کے اوپنرز بھی خطرناک ارادوں کے ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کے خلاف گروپ میچ اور وارم اپ میچوں پر توجہ دیں تو دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں۔ یعنی ان تینوں میچوں میں افغانستان کو جنوبی افریقہ کے خلاف ایک ہی میچ میں شکست ہوئی اور وہ بھی اس لیے کیونکہ ان کے دونوں اوپنرز اس میچ میں ناکام ہوئے تھے۔ لیکن ویسٹ انڈیز اور اسکاٹ لینڈ کے خلاف جب دونوں اوپنرز نے اچھا آغاز فراہم کیا تو انہیں جیت میسر آگئی۔

اوپنرز کے علاوہ نجیب اللہ زادران اور رحمان اللہ گرباز کو بھی قابو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مڈل آرڈرز میں ان دونوں نے بھی فتوحات میں کردار ادا کیا تھا۔

باؤلنگ

یہ وہ شعبہ ہے جو پاکستان کے لیے بڑے مسائل پیدا کرسکتا ہے، خاص طور پر ان کے 3 اسپنرز، یعنی محمد نبی، مجیب الرحمٰن اور راشد خان۔

ان تینوں کے 12 اوورز قومی ٹیم کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہوں گے، اور اگر ان تینوں کے خلاف کوئی مربوط حکمتِ عملی نہ بنائی تو یہ میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔

یہ تینوں مل کر اب تک 13 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں اگر ان تینوں کے بیسٹ فگرز کی بات کریں تو نبی نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 4 اوورز میں صرف 2 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آوٹ کیا تھا۔

اگر مجیب الرحمٰن کی بات کریں تو انہوں نے اسکاٹ لینڈ کے خلاف اپنے پہلے ہی ٹی20 انٹرنیشنل میچ میں 5 وکٹیں حاصل کی تھیں اور 4 اوورز میں صرف 20 رنز دیے تھے۔ اس طرح راشد خان نے بھی اسکاٹ لینڈ کے خلاف 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی اور 2.2 اوورز میں صرف 9 رنز دیے تھے۔

یہ اعداد و شمار ہمیں بتارہے ہیں کہ کس طرح قومی ٹیم کے لیے افغانستان کی ٹیم مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں