بنگلہ دیش نے ہوم کرکٹ سیزن میں پہلے آسٹریلیا اور پھر نیوزی لینڈ کو ٹی20 سیریز میں شکست دی تو ایسا لگا کہ یہ ٹیم ٹی20 ورلڈکپ کے لیے تیار ہے۔ لیکن دوسری جانب بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایسی وکٹوں پر کھیل کر بنگلہ دیشی ٹیم ورلڈکپ میں اپنے امکانات کو مزید کم کر رہی ہے۔

انہی لوگوں میں سے ایک نام بنگلہ دیشی کپتان کا بھی تھا جو فتح کے باوجود ان وکٹوں سے خوش نہیں تھے کیونکہ بلے بازوں کو اچھی پریکٹس کا موقع ہی نہ مل سکا۔

ایک خیال یہ بھی تھا کہ متحدہ عرب امارات میں بھی اسپنرز کے لیے وکٹیں سازگار ہوں گی، مگر یہاں تو معاملہ اُلٹا ہوگیا اور وکٹیں بیٹنگ کے لیے بہت بہتر ثابت ہوئیں، بلکہ حیران کن طور پر فاسٹ باؤلرز کو بھی یہاں کافی مدد مل رہی ہے۔

بنگلہ دیشی ٹیم کو دونوں وارم اپ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر کوالیفائنگ مرحلے میں اسکاٹ لینڈ نے بھی بنگلہ دیش کو شکست دے دی۔

پاپوا نیوگنی اور عمان کو شکست دے کر بنگلہ دیش نے سپر12 مرحلے میں جگہ تو بنا لی لیکن اس کے بعد ان کی ایک نہ چلی۔ انہیں سری لنکا کے خلاف ایک بڑا اسکور بنانے کے باوجود شکست ہوئی اور انگلینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر کیا جانے والا غلط فیصلہ بنگلہ دیش کے گلے پڑگیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف بنگلہ دیشی ٹیم کے پاس فتح کا بہترین موقع تھا مگر اننگ کے آخری اوور میں ویسٹ انڈیز نے یہ موقع چھین لیا۔

بنگلہ دیش بمقابلہ جنوبی افریقہ

ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں شکیب الحسن انجری کا شکار ہوگئے اور پھر خبر آئی کہ وہ اب ورلڈ کپ میں مزید کوئی میچ نہیں کھیل سکیں گے۔ ایک بڑا نام باہر ہوا تو حیران کن طور پر بنگلہ دیش نے جنوبی افریقہ کے خلاف مستفیض الرحمٰن کو بھی شامل نہیں کیا گیا اور پھر محمود اللہ ٹاس بھی ہار گئے۔

بنگلہ دیش کی پہلی وکٹ تو چوتھے اوور میں گری لیکن اس کے بعد کاگیسو ربادا اور پھر اینریچ نوکیا نے بنگلہ دیشی اننگ کو کسی بھی وقت مستحکم نہیں ہونے دیا۔ ابوظہبی کی اس وکٹ پر گیند سوئنگ ہو رہا تھا اور جنوبی افریقہ کے پیسرز کو اس خطے میں اس سے بہتر ماحول ملنا مشکل تھا۔

بنگلہ دیشی بیٹسمین یکے بعد دیگرے وکٹیں گنواتے رہے اور ایک وقت پر 60 رنز تک پہنچنا بھی مشکل لگ رہا تھا لیکن مہدی حسن نے ٹیم کو ایک باعزت اسکور تک پہنچانے کی پوری کوشش کی، اگرچہ وہ ٹیم کو 100 کا ہندسہ تو پار نہ کروا سکے لیکن 84 رنز تک ضرور پہنچا گئے۔

جنوبی افریقی ٹیم کے پاس نیٹ رن ریٹ میں بہتری کا یہ ایک اچھا موقع تھا اور شاید ان کے ذہن میں بھی یہی تھا لیکن جس وکٹ نے بنگلہ دیش کے بیٹسمینوں کو کھل کر کھیلنے نہ دیا، وہ بھلا افریقہ کے بلے بازوں کو کس طرح سکون سے کھیلنے دیتی؟

تو بس پھر تسکین احمد نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور پاور پلے میں گرنے والی 3 وکٹوں میں سے 2 تسکین کے نام رہیں۔ شریف الاسلام نے باؤلنگ تو اچھی کی لیکن وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن جیسے ہی ان دونوں کا اسپیل ختم ہوا تو جنوبی افریقہ کے بیٹسمین کھل گئے اور 14ویں اوور میں میچ کا اختتام کردیا۔

اس گروپ میں سیمی فائنل کی جنگ کافی سخت ہوسکتی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم چاروں میچ جیت کر اور اچھے رن ریٹ کی وجہ سے سیمی فائنل تک پہنچ ہی چکی لیکن سیمی فائنل کی دوسری جگہ کے لیے مقابلہ سخت ہے۔

جنوبی افریقہ 6 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے لیکن اس کا آخری میچ انگلینڈ کے خلاف ہے جو اب تک ایونٹ میں ناقابلِ شکست رہی ہے۔ دوسری جانب آسٹریلیا کے 2 میچ بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کی نسبتاً کمزور اور آؤٹ آف فارم ٹیموں سے ہیں۔ وہیں اگر ویسٹ انڈیز کی ٹیم اپنے آخری دونوں میچ جیت جاتی ہے تو وہ بھی مقابلے میں آسکتی ہے۔

پاکستان بمقابلہ نمیبیا

ٹی20 ورلڈکپ میں پاکستان کا چوتھا میچ نمیبیا سے تھا۔ اس ورلڈکپ سے پہلے بہت ہی کم لوگوں نے نمیبیا کا نام پہلے کبھی سنا ہوگا، اور نمیبیا کی کرکٹ ٹیم سے واقفیت تو اور بھی کم ہوگی، مگر اس ٹیم کا ایک کھلاڑی ایسا تھا جسے شاید ہر پاکستانی کرکٹ شائق جانتا تھا، اور وہ تھے ڈیوڈ ویزے، جو لاہور قلندرز کا حصہ ہیں اور کئی اہم میچوں میں بڑے بڑے چھکے لگا کر قلندرز کو میچ جتوا چکے ہیں۔

نمیبیا کی نسبتاً کمزور ٹیم کی وجہ سے بہت سے شائقین اور ماہرین کا خیال تھا کہ پاکستان کو اس میچ میں محمد حفیظ اور حسن علی کی جگہ حیدر علی، محمد وسیم یا محمد نواز کو موقع دینا چاہیے۔ وہیں بہت سے لوگ یہ چاہ رہے تھے کہ حسن اور حفیظ کو ایک آسان میچ مل جائے تاکہ ان کی فارم بحال ہوسکے۔

پاکستانی ٹیم انتظامیہ دوسری سوچ کے ساتھ گئی اور دونوں کو ایک موقع مل گیا۔ ٹاس جیتنے کے بعد پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بھی بیٹنگ کی طاقت جاننے کے لیے تھا تاکہ اگر سیمی فائنل میں مخالف ٹیم ٹاس جیت جاتی ہے تو کم از کم اس ٹورنامنٹ میں ایک بار پہلے کھیلنے کا تجربہ تو ہو۔

ٹورنامنٹ میں نمیبیا کا آغاز اچھا نہیں تھا اور وہ دونوں وارم اپ میچوں کے بعد پہلے مرحلے میں سری لنکا کے خلاف بھی شکست کا شکار ہوگئے تھے۔ لیکن انہوں نے بہترین واپسی کرتے ہوئے اپنے اگلے دونوں میچ جیتے، خاص طور پر آئرلینڈ جیسی بڑی ٹیم کو شکست دی اور پھر سپر 12 مرحلے کے پہلے میچ میں اسکاٹ لینڈ کو بھی ہرادیا۔

بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کا میچ بھی اسی وکٹ پر ہوچکا تھا اور وکٹ پر موجود سوئنگ کو دیکھتے ہوئے نمیبیا نے اضافی فاسٹ باؤلر کھلانے کا فیصلہ کرلیا۔

بابر اعظم کے پہلے بیٹنگ کے فیصلے سے نمیبیا کے کپتان کافی خوش تھے کیونکہ وہ خود پاکستان کو پہلے کھلانا چاہتے تھے۔ شروعات میں نمیبیا کے باؤلرز خاص طور پر روبن ٹرمپلمین نے پاکستانی بلے بازوں کو خوب پریشان کیا لیکن بابر اور رضوان نے وکٹ نہ گرنے دی اور بتدریج رنز بننے کی رفتار تیز ہونے لگی۔

بابر اعظم اور محمد رضوان نے اپنی عمدہ فارم سے خوب فائدہ اٹھایا اور محمد حفیظ بھی کافی حد تک فارم میں واپس آگئے۔ تاہم فخر زمان اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ پاکستانی بیٹنگ کافی حد تک 2 دن پہلے کھیلے گئے انگلینڈ سری لنکا میچ میں انگلینڈ سے متشابہ تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بٹلر جیسے چھکے کوئی نہیں لگا سکا ورنہ اسٹرائیک ریٹ کی بات کی جائے تو وہ رضوان کا بٹلر سے زیادہ ہی رہا۔

نمیبیا کے بلے بازوں نے اپنی پوری کوشش کی لیکن پاکستانی باؤلرز کی رفتار کے خلاف کھیلنا آسان نہیں تھا۔ زیادہ تر نمیبین بلے باز ایسی رفتار کا پہلی بار سامنا کر رہے تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے پوری دلیری سے کوشش کی۔

شاداب خان جو اس ٹورنامنٹ میں اب تک بہت عمدہ باؤلنگ کرتے رہے، اس میچ میں کچھ آف کلر نظر آئے۔ اپنی گیند پر ایک کیچ بھی چھوڑا پھر شاہین نے بھی ان کی گیند پر ایک کیچ چھوڑ دیا۔ اس نسبتاً کمزور میچ میں ایسی غلطیاں برداشت کی جاسکتی ہیں مگر آنے والے ناک آوٹ مرحلے میں شاداب اور دیگر باولرز کو اپنی ان غلطیوں پر قابو پانا ہوگا۔

شاہین آفریدی جو اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کے پہلے اوور سے ہی ہاٹ فیورٹ بن چکے ہیں، وہ بھی اس میچ میں کچھ بجھے بجھے نظر آئے۔ انہوں نے شاداب کی گیند پر نہ صرف ایک کیچ چھوڑا بلکہ کافی مہنگے بھی ثابت ہوئے۔

مگر اس اننگ کی خاص بات حسن علی کی فارم میں واپسی تھی۔ حسن علی نے وکٹ تو ایک ہی لی لیکن رنز روکنے میں کامیاب رہے اور یہی اعتماد اگلے میچوں میں ان کے کام آسکتا ہے۔ نمیبیا کی جانب سے ڈیوڈ ویزے اور کریگ ولیمز نے عمدہ ہٹنگ کی لیکن ٹارگٹ ان کی پہنچ سے بہت دُور ہی رہا۔

پاکستان کا اگلا میچ اب اسکاٹ لینڈ سے ہے جہاں کچھ کھلاڑیوں کو آرام بھی دیا جاسکتا ہے مگر ٹیم انتظامیہ کیا سوچ رہی ہے، اس بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں. یہ عین ممکن ہے کہ وہ اب اگلے تمام میچوں میں کسی تبدیلی کے بجائے موجودہ ٹیم کے ساتھ ہی میدان میں اترنے کو ترجیح دے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں