افغان ٹیم سے کہاں غلطیاں ہوئیں؟

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2021
افغانستان کو اگر بڑی ٹیموں کے خلاف مسلسل میچ کھیلنے کو ملیں تو کارکردگی میں بہت زیادہ نکھار آسکتا ہے— اے ایف پی
افغانستان کو اگر بڑی ٹیموں کے خلاف مسلسل میچ کھیلنے کو ملیں تو کارکردگی میں بہت زیادہ نکھار آسکتا ہے— اے ایف پی

جب ٹی20 ورلڈکپ کے شیڈول کا اعلان ہوا تھا تب کس نے سوچا ہوگا کہ نیوزی لینڈ اور افغانستان کا میچ اتنا اہم ہوجائے گا کہ تقریباً سبھی شائقینِ کرکٹ کی نظریں اس میچ پر ہوں گی؟

مگر حالات و واقعات کچھ اس طرح سے وقوع پذیر ہوئے کہ ٹی20 ورلڈ کپ کے میزبان، دنیائے کرکٹ کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والے اور سب سے بڑی ٹی20 لیگ رکھنے والے ملک کی سیمی فائنل تک رسائی اس میچ پر منحصر تھی۔

نیوزی لینڈ بمقابلہ افغانستان

بھارت کی ساری توقعات افغانستان کے ساتھ تھیں۔ اس اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگالیجیے کہ بھارتی اسپنر روی چندر ایشون نے افغانستان کے خلاف میچ کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش بھات افغان اسپنر مجیب الرحمٰن کو فزیو فراہم کرسکتا۔

سوشل میڈیا پر موجود ہزاروں بھارتی شائقین نے اپنے یوزر نیم میں افغان کھلاڑیوں کے نام شامل کرلیے تھے۔ کوئی زازئی بن چکا تھا تو کوئی خان، تاہم میچ کے روز کچھ بھی کام نہ آیا۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم ایک بڑی ٹیم کی طرح پروفیشنل انداز میں کھیلی اور جیت کے ساتھ سیمی فائنل میں اپنی جگہ پکی کرلی۔ 2010ء سے کرکٹ میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنے والی نیوزی لینڈ ٹیم ایک اور آئی سی سی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے۔

بلاشبہ افغانستان ایک اچھی ٹیم ہے، جسے اگر بڑی ٹیموں کے خلاف مسلسل میچ میسر آجائیں تو کارکردگی میں مزید نکھار آسکتا ہے۔ ملک کے غیر یقینی حالات، کرکٹ بورڈ میں آئے دن ہونے والی تبدیلیاں اور ایسی ہر تبدیلی کے ساتھ کپتان کی تبدیلی کسی بھی ٹیم کی ناکامی کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان ٹیم سپر 12 مرحلے میں براہِ راست پہنچتی ہے اور کسی بھی چھوٹی ٹیم کو اپنی سامنے ٹکنے نہیں دیتی۔ ایسی ٹیم کو اگر بڑی ٹیموں کے خلاف مسلسل میچ ملیں تو کارکردگی میں بہتری یقینی ہے۔

3 بڑے میچوں میں افغانستان کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان کے اوپنرز کی ناکامی ہے۔ ان دونوں اوپنرز نے پورے ایونٹ میں ہر باؤلر کو ایک ہی طریقے سے کھیلنا چاہا، یعنی نہ وکٹ دیکھتے اور نہ باؤلر کو۔

نیوزی لینڈ کے خلاف بھی ایسا ہی ہوا کہ بلے باز مسلسل غلط شاٹس پر وکٹیں گنواتے رہے اور نجیب اللہ زادران کی ایک بہترین اور بڑی اننگ بھی افغانستان کو کہیں نہ لے جاسکی۔ زادران اس اننگ میں نیوزی لینڈ کے باؤلرز کا اعتماد سے سامنا کرنے والے واحد بلے باز تھے۔

افغانستان کے پاس 2 بہترین اسپنرز ضرور موجود تھے اور دونوں نے ایک ایک وکٹ بھی حاصل کی لیکن اسکور اتنا کم تھا کہ نیوزی لینڈ کے بلے بازوں پر کسی قسم کا دباؤ پیدا نہ ہوا۔

کپتان کین ولیمسن اور ڈیون کونوے آرام سے کھیلتے ہوئے نیوزی لینڈ کو اس اسکور کے پار سیمی فائنل میں لے گئے اور یوں افغانستان کے ساتھ ساتھ اس ٹورنامنٹ میں بھارت کا سفر بھی اختتام کو پہنچا۔ بھارت کا ابھی ایک میچ نمیبیا کے خلاف باقی ہے لیکن اب اس کا نتیجہ اتنا ہی بے وقعت ہوچکا ہے جتنی انڈیا کی آئی پی ایل کے ذریعے ٹی20 ورلڈکپ کی تیاری۔

پاکستان بمقابلہ اسکاٹ لینڈ

پاکستانی ٹیم کئی دن پہلے ہی سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن چکی تھی اور گزشتہ روز کے میچ کی اہمیت یا تو پریکٹس میچ جیسی تھی یا پھر یہاں اس بات کا فیصلہ ہونا تھا کہ گروپ بی میں کون ٹاپ پر رہے گا۔

قومی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ اسی سوچ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ اگر سیمی فائنل میں پہلے بیٹنگ آجائے تو ہم کس طرح کھیل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے بیٹنگ کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں، مگر ہاں ٹیم میں کوئی تبدیلی نہ کرنا ایک اہم نکتہ تھا جس پر بات ہوسکتی ہے۔

فخر زمان اس ٹورنامنٹ میں ایک ہی اننگ مناسب انداز میں کھیل پائے ہیں اور باقی 2 اننگ میں ناکام رہے، کیا ان کی جگہ حیدر علی کو آزمایا جانا چاہیے تھا؟ فخر کی ایک اور ناکامی نے اس سوال کو مزید ہوا دی لیکن اب موقع ہاتھ سے نکل چکا۔ اب اگر فخر کی جگہ کسی اور کو موقع دینا ہے تو نیٹ پر بیٹنگ کے لیے ہی دیا جاسکتا ہے۔

اسکاٹ لینڈ کے خلاف میچ میں پاکستان کا ٹیم میں تبدیلی نہ کرنا قابلِ غور امر ہے— اے ایف پی
اسکاٹ لینڈ کے خلاف میچ میں پاکستان کا ٹیم میں تبدیلی نہ کرنا قابلِ غور امر ہے— اے ایف پی

دوسری جانب حسن علی اگرچہ وکٹیں حاصل کر رہے ہیں مگر رنز بھی بہت دے رہے ہیں اور ان کا پاؤں بھی کریز سے بار بار آگے نکل رہا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک حسن علی کی نو-بال پر ملی فری ہٹ نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا لیکن سیمی فائنل جیسے اہم میچ میں ایسی کوئی غلطی مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

ٹی20 کرکٹ میں کسی آؤٹ آف فارم بلے باز کو ایک فری ہٹ فارم میں واپس لانے کے لیے کافی ہوسکتی ہے۔ بہرحال حسن علی کی جگہ کسی اور کو آزمانے کا موقع بھی گزر چکا ہے۔ اب یہ سیمی فائنل میں ہی پتا چل پائے گا کہ حسن اور فخر ٹیم انتظامیہ کی توقعات پر پورا اتر پاتے ہیں یا نہیں؟

اسکاٹ لینڈ کے خلاف میچ میں اگرچہ پاکستان نے کسی نئے کھلاڑی کو موقع تو نہیں دیا لیکن بابر اعظم، محمد حفیظ اور شعیب ملک نے پریکٹس کے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جہاں بابر اعظم نے 5ویں اننگ میں چوتھی بار اپنی مخصوص اننگ کھیلتے ہوئے نصف سنچری بنائی وہیں شعیب ملک تو بالکل ہی بدلے ہوئے نظر آئے۔

اسکاٹش کپتان شعیب ملک کے سامنے اسپنرز کو اوورز دینی کی غلطی کر بیٹھے اور شعیب ملک نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دوسری طرف محمد حفیظ بھی اپنے پُرانے طریقے سے گیند کو ٹائم کرتے نظر آئے جو پاکستان کے لیے نہایت خوش آئند ہے۔

اسکاٹش ٹیم پہلے مرحلے میں بہترین کارکردگی دکھا کر سپر 12 مرحلے تک پہنچی تھی لیکن بڑی ٹیموں کے خلاف وہ کچھ خاص کارکردگی نہ دکھا سکی۔ اسکاٹ لینڈ کی ٹیم کے پاس اس گروپ میں نمیبیا کے خلاف جیت کا بہترین موقع میسر تھا یا پھر وہ افغانستان کے خلاف جیت کی توقع کرسکتے تھے مگر دونوں بار مخالف ٹیمیں ان سے بہتر ثابت ہوئیں اور یوں سپر12 مرحلے میں اسکاٹ لینڈ کوئی بھی میچ جیتنے سے محروم رہی۔

اسکاٹ لینڈ کے باؤلرز نے پاور پلے میں تو پاکستانی بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے نہیں دیا لیکن پاور پلے کے بعد اسکاٹ لینڈ کی ٹیم کی گرفت کمزور ہونے لگی جس کا پاکستانی کھلاڑیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

اگر بیٹنگ کی بات کی جائے تو وہاں اسکاٹش بلے بازوں کی توجہ میچ جیتنے سے زیادہ پورے اوورز کھیلنے پر مرکوز رہی۔ شاید وہ اتنا اسکور دیکھ کر ہی شکست تسلیم کرچکے تھے۔ پھر شاہین آفریدی اور حارث رؤف جیسی اسپیڈ کا سامنا بھی اسکاٹش بیٹسمیوں نے کم ہی کیا ہوگا۔ ان چھوٹی ٹیموں کو بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا موقع ذرا تسلسل سے ملتا رہے تو ان کی کارکردگی میں مزید بہتری کا امکان ہے۔

سیمی فائنل

دبئی میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل میں اگر پاکستانی ٹیم اپنی اسی فارم کو برقرار رکھتی ہے تو آسٹریلیا کو شکست دینا زیادہ مشکل نظر نہیں آتا۔ اس وقت ٹیم انتظامیہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے دباؤ کے بغیر فیصلے کر رہی ہے اور بہترین نتائج بھی حاصل کر رہی ہے۔

کچھ مسائل ضرور ہیں لیکن مسائل تو ہر ٹیم کے ساتھ ہوتے ہیں، پاکستان کی جانب سے اگر فخر زمان کی کارکردگی غیر معمولی نہیں ہے تو وارنر اور فنچ کے علاوہ دیگر آسٹریلوی بلے باز بھی تاحال کچھ خاص پرفارمنس نہیں دکھا پائے ہیں۔ جہاں ایک طرف پاکستان کے حسن علی ابھی تک اصل رنگ نہیں دکھا سکے ہیں وہیں دوسری طرف آسٹریلیا کا 5واں باؤلر ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے (یہ اور بات ہے کہ ہم میکسویل کو بھی مرلی دھرن بناسکتے ہیں) اور پیٹ کمنز بھی کافی رنز دے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں