بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے، جیسے افغان اسٹاف رکھ کر کام چلایا جائے، یو این کمپاؤنڈ میں کچھ سفارتکاروں اور سیکیورٹی حکام کو بھجوا دیا جائے یا کابل میں بھارتی سفارتخانے کو ہی دوبارہ کم اسٹاف کے ساتھ کھول لیا جائے۔ واضح رہے کہ کابل میں پاکستان، چین، روس، قطر، ایران اور کچھ وسط ایشیائی ممالک نے اپنے سفارتخانے بند ہی نہیں کیے۔

امریکا نے قطر کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے کہ کابل میں موجود قطر کا سفارتخانہ امریکی مفادات کی نگرانی کرے۔ یورپی یونین بھی کابل میں موجودگی کے حوالے سے اپنا فیصلہ کرنے والی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے کابل میں اپنا سفارتی آپریشن نومبر میں ہی دوبارہ شروع کرلیا تھا۔

اس سب کا ذکر کرتے ہوئے دی ہندو اصرار کرتا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا وقت ابھی بہت دُور ہے۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی ابھی سفارتی مشن کھولنے کے لیے بھی پوری طرح آمادہ نہیں ہیں۔ بھارت کے سابق نائب صدر حامد انصاری کئی دہائی پہلے افغانستان میں بھارتی سفیر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنا سفارتخانہ فوری کھولنا چاہیے۔

پڑھیے: انڈیا اب اپنے سمندروں میں تیرے یا ڈوب مرے

کابل میں ہی سابق سفیر رہنے والے امر سنہا کا بھی کہنا ہے کہ دنیا جیسی ہے اس کے ساتھ ویسے ہی ڈیل کرو اس کا انتظار نہ کرو کہ وہ ویسی ہوجائے جیسی ہونی چاہیے۔ کیا حاصل کرنا ہے؟ ہمارا اسٹاف وہاں کتنا محفوظ ہوگا، سفارتخانہ کھولنے سے پہلے یہ پتا ہونا چاہیے۔

یہ ایک جھلک ہے جو بتاتی ہے کہ بھارت میں طالبان سے متعلق اعلیٰ سطح پر بحث جاری ہے۔

نجم سیٹھی نے اپنے وی لاگ میں اس سے آگے کی کہانی سنائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایسا کرکے پاکستان پر برتری لینا چاہ رہا ہے۔ افغانستان میں اپنی پوزیشن بحال کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کرکے بھارت طالبان کو دکھانا چاہتا ہے کہ تمہارا سب سے بڑا حمایتی تمہاری حکومت کو تسلیم کرنے کی ہمت نہیں رکھتا لیکن ہم ایسا کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت پر نہ کسی ایف اے ٹی ایف کا پریشر ہے، نہ اسے آئی ایم ایف کے کسی دباؤ کا سامنا ہے، نہ اس پر پاکستان جیسا کوئی معاشی بوجھ ہے۔ نہ امریکی بھارت پر ویسے حکم چلانے کی پوزیشن میں ہیں جیسے وہ پاکستان کو ہدایت دیتے ہیں۔

اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو پاکستان ایک سفارتی فرسٹریشن کا شکار ہوجائے گا۔

پڑھیے: کیا افغانستان کڑوے بیج کا درخت ہے

نجم سیٹھی کے بقول بھارت ایسا کرتے ہوئے روس کو آگے رکھے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اکیلا تسلیم کرنے کے بجائے روس کے ساتھ مل کر افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرے۔ روسی چین کو خود ساتھ ملا لیں گے۔

امریکا نے چین میں ہونے والے اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کردیا ہے جبکہ بھارت نے شنگھائی تعاون کے پلیٹ فارم سے چین میں اولمپک کھیلوں کی حمایت کی ہے۔ جس کا شکریہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار گلوبل ٹائمز میں ایک طویل رپورٹ کی صورت ادا کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ چین اور بھارت سرحدی تنازعے پر لڑنے کے علاوہ بہت جگہوں پر ایک دوسرے سے تعاون بھی کر رہے ہیں۔

روسی صدر کے دورہ بھارت کا جائزہ لیتے ہوئے بی بی سی نے دونوں ملکوں کے تجارتی و دفاعی تعلقات بھارت-چین اور بھارت-امریکا تعلقات کے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افغانستان پر دونوں ملکوں کا مکمل اتفاق ہے۔ اس اتفاق رائے کی تصدیق روسی صدر کے بھارتی دورے پر جاری ہونے والے اعلامیے سے بھی ہوتی ہے۔

اس اعلامیے میں موجود دو جملے پڑھیں: 'ہمیں خوشی ہے کہ بھارت اور روس میں افغانستان کے ساتھ بات چیت کے لیے روڈ میپ پر اتفاق رائے ہوا۔ یہ علامت ہے کہ دونوں ملک کی اس حوالے سے مشترکہ سوچ اور مفادات ہیں'۔ افغانستان کے لیے فوری انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کا بھی اعلان ہوا۔ طالبان حکومت سے کئی قسم کے مطالبات بھی کیے گئے کہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔

انسانی بنیادوں پر افغانستان کے لیے بھارتی امداد کو لٹکانے میں پاکستانی کوششوں کا ذکر بھی دی ہندو نے کیا ہے۔ بتایا ہے کہ کیسے ٹرکوں پر سامان بھجوانے کے لیے پاکستان معاوضہ مانگ رہا ہے اور اصرار کرتا رہا کہ یہ سامان واہگہ سے پاکستانی ٹرک ہی لے کر جائیں گے۔

یہ تو ہوگیا وہ سارا پس منظر کہ بھارت کیسے افغانستان میں ایک کھڑکی کھولنا چاہتا ہے اور پاکستان پر برتری لینا چاہ رہا ہے۔ یوں وہ افغان طالبان کے نزدیک ہوکر پاکستان کو چڑانا چاہ رہا ہے۔

دوسری طرف طالبان کو حکومت چلانے میں جو مسائل درپیش ہیں اور جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس میں وہ بھارت تو کیا کالے چور کی امداد کو بھی خوش آمدید کہنے کو تیار ہوں گے۔ ہماری امداد دینے کی صلاحیت بھی خیر خیریت والی ہے۔ تو اس صورتحال میں پاکستان کیا کر رہا ہے؟

پاکستان افغانستان کی صورتحال پر 19 دسمبر کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کروا رہا ہے۔ او آئی سی کے 57 ممبر ممالک کے علاوہ امریکا، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین کے نمائندے بھی اس میں شرکت کریں گے۔ ورلڈ بینک، یو این اور اس کے امدادی اداروں کی بھی نمائندگی ہوگی۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ 'ہم افغانستان سے بھی ایک نمائندہ وفد کو دعوت دے رہے ہیں۔ وہ آکر افغانستان کی صورتحال پر بات کریں اور شرکا کو اپنے خیالات اور مطالبات سے آگاہ کریں۔ پاکستان کی یہ بہت اچھی سفارتی کوشش ہے۔ ایک طرح سے ہم نے ایک چھتری ڈھونڈی ہے۔ جس کی چھاؤں میں چلتے ہوئے ہم افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنا بھی نہیں چاہتے'۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں—اے پی پی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں—اے پی پی

بلاگ ختم ہونے کو آگیا لیکن اس میں نہ کوئی فسادی بات ہوئی اور نہ ابھی تک کوئی شرارت۔ نہ آپ کا امن چین قرار لوٹا۔ ایسا کیسے ہوسکتا؟ تو تیار ہوں کہ پاکستان میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس سعودی درخواست یا خواہش پر ہورہا ہے۔

دوحہ معاہدہ قطریوں نے کرایا تھا، نہیں؟ سعودی اور قطریوں کا پیار محبت آپ بھول گئے؟ تو مطلب یہ ہوا کہ پاکستان سعودیوں کو افغانستان پر ایک زوردار قسم کی اوپننگ دے رہا ہے۔ سعودیوں نے ہم کو جو حال ہی میں 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں پارکنگ کے لیے دیے ہیں اور پھر ادھار تیل کی سہولت دی ہے۔ اس کے ساتھ واپسی کے لیے جس قسم کی شرائط رکھی ہیں۔ وہ 72 گھنٹوں میں واپسی والی۔ اس کے بعد ہمارے پاس افغانستان پر خود کچھ کرنے سوچنے کو بچا ہی کیا ہے؟

ایسی صورت میں بھارت اگر افغانستان میں کوئی کردار چاہے تو سعودی ہمیں اس کی کتنی مخالفت کرنے دیں گے؟

تبصرے (16) بند ہیں

ریاض Dec 07, 2021 06:08pm
اچھا تبصرہ اور تجزیہ. کافی دنوں کے وقفے کے بعد..
اللہ بشک Dec 07, 2021 06:23pm
بہت اچھا تجزیہ ہے حالات حاضرہ پر۔ مگر میرا یہ خیال ہے کہ چین اور روس جلد بازی نہیں کریں اگر انہوں نے ایسا کیا تو ایک نئ سرد جنگ چھڑ جاے گی۔ یہ ایک مکمل سوچ بچار کا معاملہ ہے۔ ہاں انڈیا ایسا کر سکتا ہے کیونکہ جو وجوہات اپ نے لکھی ہیں وہ بادی النظر میں درست لگتی ہیں۔ اگر چین افغان حکومت کو پہلے تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ ہر قسم کے چیلنج کیلئے تیا ر ہے۔
Dr Abdul Qadeer Memon Dec 07, 2021 07:05pm
ہم سے انڈیا کی خارجہ پالیسی بہت زیادہ مظبوط ہے ۔ پاکستان کا اتحادی ابھی کوٸی نہیں رہا ۔ ظاہر ہے کہ انڈیا اپنا کام کرلے گا ۔ ہم ہواٸی فاٸر پر جشن منالینگے ۔ بہت شاندار لکھا ہے ۔
اشرف شریف Dec 07, 2021 07:11pm
افغانستان ہی نہیں اس سے فائدہ اٹھانے کی سوچ رکھنے والے سبھی ممالک کئی کئی طرح سے الجھے ہوئے ہیں ، پاکستان کی مشکلات سب سے سوا ہیں اس لئے ہم فکرمند ہیں لیکن ایسا بھی نہیں سب مل کر پاکستان کو کارنر کر دیں ،پاکستان ہر بار ثابت کرتا آیا ہے کہ وہ کتنا بھی عدم استحکام کا شکار ہو افغانستان میں اس اثاثے فعال ہیں جو بوقت ضرورت بساط الٹ سکتے ہیں۔،آپ نے بہت سے نکات ایک تحریر میں سمیٹ کر قاری کو سوچنے کی ترغیب دی ہے۔
اشرف شریف Dec 07, 2021 07:25pm
آپ نے ایک پیچیدہ صورتحال کو بین الاقوامی سرگرمیوں کے تناظر میں واضح کرنے کا مشکل کام احسن طور پر انجام دیا ۔پاکستان کے مسائل اپنی جگہ لیکن میرے خیال میں بے بسی کا تاثر مصنوعی ہے ۔
Amir kakazai Dec 07, 2021 07:52pm
اپ نے ہمیں دیس دیس کے اخبارات پڑھنے کی جھنجٹ سے ازاد کروا دیا ہے۔ جس مختلف اینگل سے اپ خبر کو پک کرتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں۔ وہ لاجواب ہے۔ ہمارے وزارت خارجہ کو چاہیے کہ اپ کا کالم ضرور پڑھا کرے اور گائیڈ لائین لیا کرے۔ لیکن ہماری حکومت تو ہماری حکومت ہے جس کے خیال میں ان سے سیانڑا کوئی دوسرا نہیں۔ افسوس بس اس چیز کا ہوتا ہے کہ موجودہ نااہل حکومت نے ہمیں کسی جوگہ نہیں چھوڑا۔
شیریار محسود Dec 07, 2021 08:07pm
بہترین لکھا ہے لیکن آسان الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح پھنس گیا ہے۔ اور اب کی بار خدا خیر کرے
Peer Syed Mudassir Shah Dec 07, 2021 08:33pm
پ نے حالات و واقعات کا نقشہ خوبصورتی سے کھینچا , لیکن سعودیہ کے تناظر میں بات کرتے ہوئے آپ متحدہ عرب امارات کا ذکر کئے بغیر ہی آگے نکل گئے, ساتھ ساتھ ایران اور ترکی اس وقت کیا کرتے , سوچتے گھوم رہے ہیں اپنی معیشتوں کے ساتھ اگر افغانستان کے بغل میں (جوکہ ہماری بھی بغل ہے) کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے کہ جس میں سعودیوں کی درپردہ دوستی اور متحدہ عرب امارات کی حالیہ (اعلانیہ) دوستی و تعلق فریق بن جائے تو پاکستان کی کیا پوزیشن ہوگی . کیا بھارت اپنے دوستوں (ایران اور اسرائیل ) کے درمیان ایسے کسی تنازعے کو روکنے کی استعداد رکھتا ہے
Jamal Abdullah Dec 07, 2021 09:03pm
بہت اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر۔
ہلال احمد Dec 07, 2021 09:11pm
طالبان کو حکومت چلانے میں جو مسائل درپیش ہیں اور جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس میں وہ بھارت تو کیا کالے چور کی امداد کو بھی خوش آمدید کہنے کو تیار ہوں گے
Ghulam Farid Dec 07, 2021 09:13pm
جب ہم اپنے اندرونی حالات سے نمٹ لیں تب بیرونی حالات کے لئے منصوبہ بندی کر سکیں گے۔ ہماری خارجہ پالیسی گم نام ہے،ناکام ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں کوئی اور ہے۔ داخلہ پالیسی بھی خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ خارجہ اور داخلہ سارے لوگ مخالف ہو رہے ہیں۔ ہماری سمت ہی درست نہیں۔
عبدالجبارناصر Dec 07, 2021 09:14pm
افغان ایشو مٰیں پاکستان اور بھارت کی بھاگ دوڑ کے حوالے سے بہترین تحریر ہے۔ بھارت کی اب بھی یہی کوشش ہے کہ نہ صرف اسکی 20 سالہ سرمایہ کاری برباد نہ ہو ، بلکہ وہ افغانستان میں پاکستان کا اثر رسوخ کم کرنے کے لئے ہر حدتک جانے کو تیار ہے۔
Abdullah Jan Dec 07, 2021 09:59pm
بین السطور میں بہت کچھ کہہ دیا آپ نے۔ بالکل ٹھیک کہا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود بات کوئی زیادہ بنتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ دنیا کا کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں اتنی جلدی کرے گا۔ اقوام عالم خصوصا امریکہ اور یورپ میں شاید ابھی طالبان کو فی الحال کچھ عرصے کے لیے عدسے کے نیچے رکھنے کی سوچ موجود ہے، امداد دی جائے گی، لیکن حکومت کو تسلیم کرنا ابھی دور ہے۔
فیصل Dec 08, 2021 10:27am
بہترین تجزیہ حالات کا تانا بانا بڑے اچھے سے جوڑا
محمد رضا سرگانہ Dec 08, 2021 09:35pm
اچھا، مگر ہمیشہ کی طرح چین سکون لوٹ لینے والا تجزیہ و پس منظر و پیش منظر بیاں کیا ہے۔ آگہی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ مرا
Shahid Mahmood Dec 09, 2021 05:33am
جب تک روس چین اور امریکہ طالبان حکومت کو باہمی رضامندی سے تسلیم نہی کرتے پاکستان اور انڈیا سمیت کوئی بھی ملک ایسا نہی کر سکتا۔ طالبان حکومت کے وزراء اقوام متحدہ کی ٹیررسٹ لسٹ پر ہیں جب تک ان کے نام وہاں سے نہی نکالے جاتے تو انہیں تسلیم کرنے کا کوئی بھی فیصلہ غیر قانونی ہوگا۔