3 اپریل کا دن کافی سخت تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وزیرِاعظم کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، اس موقع پر کسی بڑے ہنگامے کا خدشہ تھا۔ خود وزیرِاعظم نے ایک روز قبل ہی عوام سے ٹیلی فونک گفتگو میں ملک کے نوجوانوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ امریکی سازش کے خلاف وہ سڑکوں پر نکلیں اور احتجاج کریں۔

جس وقت ہم نے ان کا خطاب سنا تو اس وقت ہی فکر لاحق ہوگئی کہ ناجانے کیا ہوگا؟ لیکن شام کو رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا تو کچھ اطمینان ہوا کہ شاید معاملات زیادہ خراب نہ ہوں۔

3 اپریل اتوار کا دن تھا، لیکن اس کے باوجود میں صبح جلدی گھر سے نکل گیا کہ کہیں ایسی صورتحال پیدا نہ ہوجائے کہ پارلیمنٹ ہاؤس ہی نہ پہنچ سکوں۔

ریڈ زون مکمل سیل تھا، اس لیے طویل راستہ اختیار کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایکسپریس وے پر مجھے ایک جگہ 2 گاڑیاں نظر آئیں، جن کے ساتھ ایک بچی اور کچھ نوجوان پی ٹی آئی کے پرچم کے ساتھ کھڑے تھے۔ پھر کچھ آگے نکلے تو مارگلہ روڈ پر ایک جگہ ایک فیملی سڑک کے ساتھ پلے کارڈ لیکر کھڑی تھی۔ یہ کوئی سوا 10 بجے کا وقت تھا۔ راستے میں سخت سیکیورٹی اور کچھ رکاوٹیں موجود تھیں، لیکن شناخت کرانے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گیا اور سکھ کا سانس لیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت ساڑھے 11 بجے کا تھا، مگر ایک، دو گھنٹے پہلے ہی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد پریس گیلری میں موجود تھی۔ رش اس قدر زیادہ تھا کہ جو رپورٹر معمول کی کارروائی کور کرتے ہیں، ان کو بیٹھنے کے لیے جگہ تک میسر نہیں تھی۔ پھر ان رپورٹرز کی ایک بڑی مشکل اپنے سینئرز کے لیے پاس کا انتظام کرنا بھی تھا جو کوریج کی غرض سے اسمبلی آنا چاہتے تھے۔

بہرحال جب 38 منٹ کی تاخیر کے بعد اجلاس کا آغاز ہوا تو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اگلے کچھ منٹوں میں ملک کی کایا ہی پلٹ جائے گی۔

قومی اسمبلی اجلاس کی ابتدا قرآن پاک کی تلاوت، حدیث نبوی ﷺ اور اس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوتی ہے اور اس کے بعد قومی ترانا بجایا جاتا ہے۔ یہ کارروائی کُل ملا کر 5 سے 8 منٹ کے درمیان ہوتی ہے۔

قومی اسمبلی کو کور کرنے والے رپورٹرز کا اندازہ یہ تھا کہ وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک جاسکتا ہے، اور ایک فریق کی کامیابی اور دوسرے کی ناکامی کے نتیجے میں صورتحال کوئی بھی رخ اختیار کرسکتی تھی، اسی لیے تمام رپورٹرز ذہنی طور پر تیار تھے کہ حالات کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔

اپوزیشن اپنے اتحادیوں سمیت 11 بجے تک ایوان کے اندر موجود تھی۔ خوش گپیاں اور قہقہے ان کے اعتماد کا پتہ دے رہے تھے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 ارکان درکار تھے، لیکن اپوزیشن بنچوں پر 176 ارکان موجود تھے، جبکہ منحرف ارکان اس کے علاوہ تھے، جنہیں اپوزیشن رہنماؤں کے چیمبرز میں ٹھہرایا گیا تھا تاکہ جب بھی ان کی ضرورت پڑے تو فوری طور پر انہیں ایوان میں لایا جاسکے۔

مسلم لیگ (ق) کے 2 ارکان طارق بشیر چیمہ اور چوہدری سالک حسین بھی اپوزیشن بنچوں والی لابی سے اندر داخل ہوئے، جنہیں دیکھ اپوزیشن ارکان بہت خوش نظر آرہے تھے، اور قائدین نے ان کا استقبال کیا کہ 2 نمبر مزید بڑھ گئے تھے۔

اپوزیشن کے سرکردہ رہنما اتنے پُراعتماد تھے کہ شہباز شریف اور آصف علی زرداری خود حکومتی بنچوں تک گئے اور کچھ ارکان اور وزرا سے مصافحہ کیا۔ وہ خود کو ایک ایسا حکمران محسوس کر رہے تھے جن کی حکمرانی کا یقینی فیصلہ بس چند منٹوں میں ہی آنے والا تھا۔

حکومتی ارکان میں وہ ولولہ نظر نہیں آرہا تھا، اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ حکومت نے جو منصوبہ بنایا تھا اس کا علم صرف چند لوگوں کو ہی تھا۔ لیکن جب 38 منٹ بعد اجلاس شروع ہوا تو اس کے 12 منٹ میں صورتحال مکمل طور تبدیل ہوچکی تھی۔ اپوزیشن کے ارکان تو ضرور احتجاج کر رہے تھے، لیکن سرکردہ رہنماؤں کے کچھ بھی پلے نہیں تھا، ایسا واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ جیسے انہیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر ان کے ساتھ یہ سب ہو کیا گیا۔

ابتدائی ایجنڈے کے بعد جیسے ہی باقاعدہ اجلاس کا آغاز ہوا تو ڈپٹی اسپیکر نے مائک وزیرِ قانون فواد چوہدری کو دے دیا۔ فواد چوہدری نے واردات کا آغاز کیا اور ڈپٹی اسپیکر نے پہلے سے تحریر شدہ رولنگ پڑھی اور اپنی نشست سے اٹھ کر روانہ ہوگئے۔

وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم کی قرارداد جیسے ہی مسترد ہوئی تو حکومتی بنچوں پر موجود ارکان کا ردِعمل دیدنی تھا۔ 18ویں ترمیم کے بعد پہلی بار دیکھا کہ جب ملک کا وزیرِ قانون تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے رہا تھا تو ساتھ ساتھ حکومتی ارکان ’جو امریکا کا یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ کا نعرہ لگارہے تھے۔ لیکن رولنگ کے بعد خوشی صرف حکومتی بنچوں پر ہی نہیں تھی بلکہ پریس گیلری میں موجود بہت سارے حکومتی حامی صحافیوں کے چہروں پر بھی نظر آئی۔ بات یہاں نہیں رکی بلکہ کچھ نے تو رولنگ کے ساتھ کھڑے ہوکر نعرے بازی بھی شروع کردی، اور اس کے نتیجے میں پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور ان کے درمیان جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔

ایک طرف اپوزیشن ہکا بکا تھی تو دوسری جانب برسوں سے پارلیمان کو کور کرنے والے صحافیوں کا حال بھی مختلف نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بھی اس پوری کارروائی سے متعلق نہیں سوچا تھا۔ مگر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد سب کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ ڈپٹی اسپیکر ایک فاتح کی طرح واپس جاچکے تھے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان جشن میں مگن تھے، لیکن دوسری جانب اپوزیشن کا وہ حال تھا جو بڑے دھماکے کے فوری بعد کسی بھی انسان کا ہوسکتا ہے، نہ کچھ سنائی دے اور نہ سمجھ آئے، بندہ بے سدھ ہوجائے۔

لگ بھگ آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد جب کچھ اوسان بحال ہوئے تو اپوزیشن کی طرف سے رپورٹرز کو میسج کیا گیا کہ اپوزیشن قومی اسمبلی کے ایوان میں اپنی کارروائی چلائے گی۔

20 منٹ بعد سابق اسپیکر ایاز صادق اپنی نشست سے اٹھے اور اسپیکر کی نشست پر بیٹھ گئے۔ اسمبلی کا عملہ بھی پریشان تھا کہ اس ساری صورتحال کو کیسے روکا جائے؟ ایاز صادق سابق اسپیکر رہ چکے ہیں اس لیے عملے کے لیے انہیں روکنا کافی مشکل تھا۔ بغیر کسی مداخلت کے جب ایاز صادق نے کارروائی کا آغاز کیا تو سب کچھ ماضی قریب میں پہلی بار ہو رہا تھا۔

ابھی 5 سال پہلے ہی کی بات ہے جب اس وقت کی اپوزیشن پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک پر اسمبلی لگایا کرتی تھی، لیکن اس بار جب وزیرِاعظم اسمبلی توڑ چکے تھے تو اپوزیشن قومی اسمبلی کی علامتی کارروائی ایوان میں ہی چلا رہی تھی۔

ایاز صادق نے وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر کارروائی شروع کی تو اس دوران منحرف ارکان، جن کو پہلے ایوان میں نہیں لایا گیا تھا اب وہ بھی ایوان میں آچکے تھے۔

سب سے پہلے اپوزیشن لیڈر نے تقریر کی اور اس کے بعد تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مرحلہ مکمل کیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے والے تمام ارکان مختص لابی میں گئے اور کچھ دیر بعد واپس آگئے، جس کے بعد تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا۔ اس دوران کچھ دیر کے لیے ایوان کی تمام لائٹس بند کردی گئیں۔

یہ تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد ارکان ایوان اور پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت میں ہی موجود رہے، کیونکہ ساتھ موجود سپریم کورٹ میں اس تمام صورتحال پر ہلچل شروع ہوگئی تھی۔ اب ٹی وی اسکرینوں کا رخ سپریم کورٹ کی طرف تھا۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان کو واضح طور پر کہا گیا کہ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کا کوئی مختصر فیصلہ آجائے لہٰذا کوئی بھی رکن پارلیمنٹ سے باہر نہ جائے۔

دوسری طرف اپوزیشن قائدین بھی اپنے اپنے چیمبر میں موجود تھے یا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر کی طرف جاتے دکھائی دیتے تھے۔ افطاری کے بعد تک یہ سرگرمیاں پارلیمنٹ کی راہداریوں میں جاری رہیں۔ اگرچہ قومی اسمبلی کا معمول کا عملہ تو گھروں کی طرف جاچکا تھا مگر اپوزیشن قائدین کا عملہ یہاں موجود تھا۔

جب سپریم کورٹ کی طرف سے پریس ریلیز جاری ہوگئی اور بتایا گیا کہ اب اس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی تو اس کے بعد اپوزیشن ارکان کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوگئی۔

جب سے تحریک عدم اعتماد کی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں، تب سے ایک بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی تھی کہ اپوزیشن ہو یا حکومت، کسی بھی ذمہ دار کی نیند پوری نہیں ہورہی تھی، لیکن اس تھکاوٹ کے باوجود اپوزیشن کو 200 فیصد کامیابی کی امید تھی، اور یہ ہی وہ امید تھی جو اپوزیشن کو مزید کام کرنے کی شہہ دیتی تھی، لیکن 3 اپریل کو جب 38 منٹ کی تاخیر سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اس وقت صرف حکومت کے چند ہی ایسے لوگ تھے جن کے چہروں پر اطمینان تھا، اور کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ چند منٹوں میں کیا ہونے والا ہے؟

پھر وہی ہوا جس کا تذکرہ کردیا گیا ہے۔ حکومت کی یہ آئینی جگاڑ آئینی ہے یا غیر آئینی اس پر دونوں اطراف سے بھرپور دلائل پیش کیے جارہے ہیں، اور سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے سماعت کررہا ہے۔ لہٰذا ملک کی اعلیٰ عدلیہ اس حوالے سے کیا سوچتی ہے، اس کا فیصلہ چند گھنٹوں یا دنوں میں آجائے گا اور ہمیں یہ اندازہ ہوجائے گا کہ ملک کس راہ کی جانب گامزن ہونے لگا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں