لوگوں کو ہرگز توقع نہیں تھی کہ انتخابات سے محض 14 ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ جانے کی صورت میں موجودہ اتحادی حکومت سخت فیصلے اٹھانے کا حوصلہ کرسکتی ہے، لیکن تمام تر توقعات کے برخلاف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 3 ہفتوں سے بھی کم عرصے میں 60 روپے بڑھا دی گئیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت 200 روپے سے تجاوز کرگئی۔

یہی نہیں بلکہ ان قیمتوں میں مزید اضافے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔ دوسری جانب بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بھی 7 روپے 91 پیسے اضافہ کردیا گیا ہے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے ایندھن کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے پر سیاست میں گرما گرمی دیکھی جارہی ہے۔ سابق بینکار اور سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے سینیٹ میں بتایا کہ سابقہ حکومت روس سے سستا ایندھن خرید رہی تھی۔ ان کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہی اور پیٹرولیم قیمتوں کو نہیں بڑھایا۔ شوکت ترین کے علاوہ عمران خان اور دیگر اپوزیشن رہنما بھی حکومت پر تنقید کے نشتر برسار رہے ہیں۔

دوسری طرف موجودہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کہتے ہیں کہ ایندھن کی قیمت میں اضافہ سابقہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانیوں کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔ حکومت اب بھی پیٹرول پر 8 روپے سبسڈی دے رہی ہے اور 23 روپے کا نقصان ڈیزل میں رہ گیا ہے۔ 10 تاریخ کو بجٹ میں کافی معاملات سمٹ جائیں گے۔ سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر پیٹرول کی قیمت نہ بڑھاتے تو روپیہ مزید گرتا اور مزید مہنگائی ہوتی۔

وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ اگر روس سے 30 فیصد سستا پیٹرول مل سکتا ہے تو پی ایس او ہر 15 دن میں ٹینڈر کرتا ہے اس میں کوئی کیوں پیشکش نہیں کرتا ہے؟ حماد اظہر نے جو خط روسی حکام کو تحریر کیا تھا اس کا جواب روس نے تاحال نہیں دیا ہے۔

اس سیاسی کھیل سے قطع نظر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آخر موجودہ حکومت کو ایندھن کی قیمت میں اس قدر اضافہ کیوں کرنا پڑا ہے۔ کیا واقعی عالمی سطح پر ایندھن مہنگا ہوا ہے یا پھر روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ایندھن مہنگا کرنا پڑا ہے؟

ایندھن کی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے۔ آج جو قیمت ہے وہ کل نہیں ہوگی۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جون 2012ء میں تیل کی قیمت عالمی منڈی میں 84 ڈالر فی بیرل تھی جو 9 ستمبر 2013ء کو 109 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ اس کے بعد عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمت کم ہونا شروع ہوئی اور یہ بتدریج کم ہوتے ہوئے 10 فروری 2016ء کو 27 ڈالر تک آگئی۔

کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایندھن کی طلب کم ہوئی تو اپریل 2020ء کو یہ قیمت 11 ڈالر تک دیکھی گئی۔ کورونا لاک ڈاؤن ختم ہونے اور روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے ایندھن کی قیمت تیزی سے بڑھی اور 8 مارچ 2022ء کو عالمی منڈی میں ایندھن 119 ڈالر 87 سینٹس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

2013ء سے 2022ء تک خام تیل کی قیمت— تصویر: میکرو ٹرینڈس
2013ء سے 2022ء تک خام تیل کی قیمت— تصویر: میکرو ٹرینڈس

پاکستان میں سوئی گیس کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے پاکستان نے قطر سے آر ایل این جی کی خریداری کے طویل مدتی معاہدے کیے جو دنیا میں سب سے سستی آر ایل این جی خریداری کے معاہدے تھے۔ معاہدے کے تحت برینٹ کروڈ کی قیمت کے 13 فیصد کی قیمت طے کی گئی تھی۔

یورپ کا توانائی کے لیے روسی گیس پر 40 فیصد انحصار ہے، مگر روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ نے گیس کی خریداری روس سے دیگر ملکوں کو منتقل کرنے کی کوشش کی جس سے عالمی سطح پر گیس کی قیمت سیال ایندھن کے مقابلے میں تیزی سے بڑھی۔

جنوری 2021ء کو آر ایل این جی کی قیمت 8.73 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ برینٹ کروڈ کی قیمت 55.1 ڈالر فی بیرل تھی۔ مئی 2022ء کو آر ایل این جی کی قیمت 21.83 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی جبکہ برینٹ کروڈ کی قیمت 111.85 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ یعنی 17 ماہ میں برینٹ کروڈ کی قیمت دگنی اور آر ایل این جی کی قیمت ڈھائی گنا بڑھ گئی ہے۔

پاکستان میں اس وقت 6 آئل ریفائنریاں موجود ہیں جن کی کروڈ آئل صاف کرنے کی صلاحیت ایک کروڑ 94 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ مالیاتی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ریفائنریز کی پیداواری گنجائش ایک کروڑ 16 لاکھ ٹن استعمال کی گئی۔ ریفائنریز کو صرف کھپت کا 20 فیصد کروڈ آئل مقامی طور پر دستیاب ہوتا ہے جبکہ 80 فیصد کروڈ آئل درآمد کرکے صاف کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ایندھن کی بچت اور سستے ایندھن سے بجلی بنانے کے لیے 2013ء میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر بڑے پیمانے پر تعمیر ہونا شروع ہوئے۔ سی پیک کے تحت لگائے جانے والے 70 فیصد پاور پلانٹس بھی کوئلے پر ہی چلتے ہیں مگر عالمی منڈی میں کوئلے کی قیمت میں بھی اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

جولائی 2020ء میں ایک ٹن کوئلہ 84 ڈالر 75 سینٹس تھا جو جون 2021ء میں 122 ڈالر 75 سینٹس کا ہوگیا مگر گزشتہ 11 ماہ میں کوئلے کی قیمت بہت زیادہ تیزی سے بڑھی اور 31 مئی 2022ء کو فی ٹن کوئلہ 427 ڈالر فی ٹن کا ہوگیا تھا۔ اس طرح 11 ماہ میں کوئلے کی قیمت 305 ڈالر یعنی ساڑھے تین گنا بڑھ چکی ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران کوئلے کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلی
گزشتہ ایک سال کے دوران کوئلے کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلی

بجلی کی فی یونٹ قیمت

حکومت کی جانب سے فیصلے کے بعد نیپرا نے بجلی کے بنیادی ٹیرف پر 7 روپے 91 پیسے فی یونٹ اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے۔ اس اضافے سے قبل بنیادی ٹیرف 16 روپے 91 پیسے تھا جو اب بڑھ کر اوسطاً 24 روپے 82 پیسے ہوگیا ہے۔

نئے نرخوں میں ایندھن کی خریداری کے علاوہ کپیسیٹی چارجز بھی شامل ہیں۔ بجلی کی تیاری میں آنے والی ایندھن کی لاگت کو تو ٹیرف میں شامل کرنا سمجھ میں آتا ہے مگر کپیسیٹی چارجز کو شامل کرنا صارفین کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہوگا۔ اگر بجلی گھر لگائے ہیں تو اس کے خریدار بھی بنائیں، ان کو بند رکھ کر عوام سے چارجز وصول کرنا کاروباری اخلاقیات کے خلاف ہے۔

مہنگی ہوتی بجلی اور گاڑیوں کے ایندھن میں بس ایک ہی بات باقی رہ جاتی ہے کہ بچت کی جانب توجہ دی جائے۔

توانائی کی بچت

توانائی جس میں ہر قسم کا ایندھن شامل ہے، وہ دنیا میں کاروبار، صحت، ٹرانسپورٹ، پیداواری شعبہ، صحت اور تعلیمی اداروں کو رواں رکھنے میں معاون ہوتی ہے۔ جب بھی ایندھن اور توانائی کی قیمت بڑھتی ہے تو دنیا بھر میں معیشتیں بحران کا شکار ہوتی ہیں اور یہ بحران ہم پاکستان میں محسوس بھی کررہے ہیں۔ اس لیے قومی سطح پر توانائی کی بچت نے اہمیت اختیار کرلی ہے اور حکومتوں کے پاس طاقت ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ توانائی کی بچت کے اقدامات کرے۔

توانائی کی بچت کے حوالے سے حکومت نے اپنے ایندھن کے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے وفاقی اور صوبائی سطح پر ایندھن کے استعمال میں 30 فیصد تک کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ناکافی ہے کیونکہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا 80 فیصد درآمد کرتا ہے۔ جب بھی آپ اپنی موٹر سائیکل، گاڑی یا پھر گھر میں برقی آلات استعمال کرتے ہیں تو اس کے عوض دراصل ہم ڈالر ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ ہمیں توانائی کی بچت کرنا ہوگی اور اس بچت میں حکومتی اور انفرادی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

بجلی کی بچت کے حوالے سے کے الیکٹرک کی چیف مارکیٹنگ آفیسر سعدیہ دادا کا کہنا ہے کہ ’ایک سال کی قلیل مدت میں ایندھن کی قیمت تیزی سے بڑھی ہے جبکہ کے الیکٹرک کو مقامی گیس دستیاب نہیں ہے۔ آر ایل این جی کی قیمت 1500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر 4700 روپے ہوگئی ہے اور فرنس آئل کی قیمت 135 فیصد بڑھی ہے۔ کراچی شہر کے لیے آئندہ مہینوں میں بیس ٹیرف کے علاوہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں 10 سے 12 روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ کے الیکٹرک کو وہ مقامی گیس نہیں مل رہی جو درآمدی گیس سے 3 گنا سستی ہے۔ اس لیے صارفین کو چاہیے کہ وہ بجلی کے استعمال میں کمی کریں‘۔

سعدیہ دادا مزید کہتی ہیں کہ ’اگر صارف بجلی کی 20 سے 25 فیصد بچت کرے تو اس کا ماہانہ بل گزشتہ سال کے بجلی کے بل کے قریب قریب رہنے کا امکان ہے۔ اس کے لیے صارفین کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر برقی آلات کے استعمال میں احتیاط برتنا ہوگی‘۔

پاکستان انیشیٹو آن انرجی نے بجلی کی بچت سے متعلق تجویز پیش کی ہے کہ بجلی کے 200 یونٹ اور زائد استعمال کرنے والوں سے فوری سبسڈی ختم کی جائے جس سے گھاٹے میں کمی ہوگی۔ اس کے علاوہ صنعتی اور غیر صنعتی فیڈرز کو الگ کیا جائے اور صنعتی فیڈرز پر بجلی کی فراہمی کو ترجیح دی جائے۔ ایندھن کے ذخائر کی ہر وقت مانیٹرنگ کا طریقہ کار وضع کیا جائے اور توانائی کی بچت کے حوالے سے حکومت ذرائع ابلاغ کے ذریعے آگاہی مہم چلائے۔

مارکیٹ کے اوقات کو صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک محدود کیا جائے، اور فوری طور پر کام کے دن 6 سے کم کرکے 4 کیے جائیں۔ اس حوالے سے پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے بھی فوری طور پر ایندھن کی بچت کے لیے ہفتے میں ایک روز گھر سے کام کرنے کی تجویز دی ہے۔ کونسل کے مطابق ہفتے میں ایک دن گھر سے کام کرنے سے ماہانہ 16 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی بچت متوقع ہے۔ پی بی سی کا کہنا تھا کہ ایندھن کی بچت پر عمل کرنے کا کوئی سیاسی نقصان بھی نہیں ہوگا۔

ایندھن کے مقامی وسائل پر انحصار

پاکستان کا توانائی کے حوالے سے تاریخی جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 1960ء کی دہائی میں دریافت ہونے والی سوئی گیس اور 1980ء کی دہائی میں بنائے جانے والے ڈیمز کی وجہ سے پاکستان 3 دہائیوں تک توانائی کے شعبے میں خود کفیل رہا۔ 1990ء کی دہائی میں آبادی بڑھنے اور صنعتی اور تجارتی مراکز قائم ہونے کی وجہ سے ملک میں ایندھن کی طلب بڑھ گئی جس کے لیے فوری طور پر مقامی وسائل کو بڑھانے کے بجائے درآمدی ایندھن پر انحصار کو بڑھایا گیا۔

پاکستان میں کوئلے کے بڑے ذخائر موجود ہیں جن کا تخمینہ 186 ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ اس میں سے 185 ارب ٹن کوئلہ سندھ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں 45 کروڑ 87 لاکھ ٹن، پنجاب میں 23 کروڑ 50 لاکھ ٹن، خیبرپختونخوا میں 12 کروڑ 29 لاکھ ٹن اور کشمیر میں 87 لاکھ ٹن معدنی کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔

پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کی وجہ سے صوبہ سندھ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ طویل عرصے کی سوچ بچار کے بعد سندھ حکومت نے نجی شعبے کے اشتراک سے تھر کے کوئلے کو نکالنا شروع کیا ہے اور اب اس سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوگئی ہے۔ اینگرو کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو غیاث خان کا کہنا تھا کہ ’اگر درآمدی کوئلے سے بجلی کا ایک یونٹ 35 روپے میں بنتا ہے کہ تو مقامی کوئلے سے یہی یونٹ 13 روپے میں دستیاب ہوگا یعنی فی یونٹ 22 روپے کی بچت ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ مقامی کوئلے کو استعمال میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں‘۔

تھر کے کوئلے کو سپلائی چین سے منسلک کیا جانا چاہیے جس کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک ریلوے لائن کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ اس سے یہ کوئلہ ناصرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں باآسانی پہنچایا جاسکے گا۔ اس ریلوے لائن کے قیام سے تھر کا کوئلہ بجلی بنانے کے علاوہ سیمنٹ اور اسٹیل فیکٹریوں میں بھی استعمال ہوسکے گا۔ تھر کے کوئلے کے ذخائر کو ناصرف براہِ راست ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ پراسیس کرکے اس کو مختلف ایندھن جیسے کہ کول بیسڈ گیس اور ڈیزل میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے تھر میں پیٹرو کیمیکلز انڈسٹری قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو تیل و گیس کے شعبے میں تیزی سے گرتے ہوئے مقامی ذخائر کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 9 فیصد ذخائر میں کمی ہورہی ہے جبکہ تیل و گیس کی تلاش کا کام اس تیزی سے نہیں ہورہا ہے۔ پاکستان کے سیسمک ایریا کا رقبہ 8 لاکھ 27 ہزار مربع کلومیٹر ہے جس میں سے اب تک صرف 20 فیصد میں تیل و گیس کی تلاش کا کام ہوا ہے۔

تیل و گیس کے مقامی وسائل کو بڑھانے کے لیے حکومت کو تلاش کے زیادہ سے زیادہ منصوبے شروع کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی وزارتِ توانائی کے مطابق ملک میں سیال ایندھن کے معلوم ذخائر کی مقدار 56 کروڑ 80 لاکھ بیرل ہے اور یہ 17 سال تک نکالے جاسکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ گیس کے 21.45 ہزار ارب کیوبک فٹ کے معلوم ذخائر ہیں جو 14 سال تک پیداوار دے سکیں گے۔

ملک میں سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 2 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ دستیاب ہے۔ اب تک سمندر میں صرف 18 کنوؤں کی کھدائی کی کوشش ہوئی ہے جو سب ناکام رہیں تاہم سروے اس بات کو ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی سمندری حدود میں بڑے پیمانے پر گیس اور تیل کے ذخائر موجود ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا میں گیس اور تیل کی تلاش کے لیے ٹائٹ اور شیل کے نام سے 2 نئی ٹیکنالوجیاں بھی متعارف ہوئی ہیں اور امریکا نے انہیں بڑے پیمانے پر استعمال کرکے خود کو گیس کی پیداوار میں خود کفیل کرلیا ہے۔

ٹائٹ گیس کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان میں ابھی تک متعارف نہیں کرائی گئی ہے۔ مگر وزارتِ توانائی کے مطابق کمپنیوں نے جو ڈیٹا جمع کیا ہے اس کے مطابق ملک میں ٹائٹ گیس کے 35 سے 40 ہزار ارب کیوبک فٹ ذخائر صرف انڈس بیسن میں موجود ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ملک میں تیزی سے ایندھن کے مقامی ذخائر کو قابلِ استعمال بناسکتی ہے۔

امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق پاکستان میں 105 ہزار ارب کیوبک فٹ شیل گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ توانائی نے ایک تحقیقاتی رپورٹ یو ایس ایڈ کے تعاون سے تیار کی ہے جس کے مطابق صرف انڈس بیسن میں 95 ہزار ارب کیوبک فٹ گیس اور 14 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔

ملک میں تیل و گیس کے ذخائر کی قلت نہیں ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے کنووں کی کھدائی کا عمل تیز کیا جائے۔ تیل و گیس کی تلاش کے لیے جس قدر زیادہ کنووں کی کھدائی ہوگی اسی قدر تیل و گیس کی دریافت کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ٹائٹ اور شیل گیس کے حوالے سے نئی ٹیکنالوجی بھی جلد از جلد متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔

متبادل توانائی

پاکستان میں متبادل توانائی کے لیے بہت اہم مواقع موجود ہیں۔ متبادل یا دوست توانائی کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں بجلی کی پیداوار کے لیے ہائیڈرو کاربن یا کوئلے یا کسی قسم کے ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اس لیے یہ توانائی سستی ہوتی ہے۔

پاکستان میں شمسی توانائی اور ہوا سے حاصل ہونے والی تونائی پر بہت کم کام ہوا ہے۔ ملک میں شمسی توانائی اور ونڈ انرجی کی مجموعی انسٹالڈ صلاحیت 1500 میگاواٹ ہے جو مجموعی بجلی کا محض 4 فیصد ہے۔ عالمی بینک کی تحقیق کے مطابق پاکستان مجموعی رقبے کا 0.071 فیصد رقبہ استعمال کرکے 24 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرسکتا ہے جو سال 2030ء تک اس کی مجموعی طلب کا 30 فیصد ہوگا۔

متبادل توانائی بورڈ نے بھی پاکستان میں ماحول دوست توانائی کے حوالے سے ایک پالیسی 2016ء میں پیش کی تھی۔ پالیسی میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ 2025ء تک ملک میں 20 فیصد ماحول دوست توانائی اور 2030ء تک 30 فیصد ماحول دوست توانائی سسٹم میں شامل کی جائے گی۔

پاکستان میں اس وقت ڈیموں کے 10 منصوبے زیرِ تکیمل ہیں جو 2023ء سے لے کر 2029ء تک مکمل ہوں گے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 11.7 ملین ایکٹر فٹ ہوجائے گی جو 16 لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ ان منصوبوں سے ملک کو 9 ہزار میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی اور پن بجلی کی مجموعی صلاحیت 18 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں بڑے اور درمیانے درجے کے پن بجلی منصوبوں کے ذریعے 41 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

پاکستان کو فوری طور پر توانائی کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور جو قدم کل اٹھانا ہے اس کو آج ہی اٹھانا ہوگا تب ہی ملک توانائی کے موجودہ بحران سے نکل سکے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

A.K Mohsin Jun 08, 2022 09:23am
Good Report