سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے اس وقت لاکھوں پاکستانی اپنے اپنے قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے اور ان کی کھال اتارنے کے بعد گوشت بنانے میں مصروف ہیں۔ عید الاضحٰی ناصرف ایک مذہبی تہوار ہے بلکہ اس کی معاشی اہمیت کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بعض لوگوں کے لیے عید الاضحٰی ذوالحجہ کے ابتدائی 10 دن ہیں۔ مگر جو لوگ اس کے معاشی پہلو سے بھی وابستہ ہیں وہ پورا سال اس عید کے لیے تیاریاں کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں جانوروں کی افزائش کرنے والے کسان یا چرواہے اور چمڑے کے کاروبار سے منسلک افراد بھی شامل ہیں۔

عیدِ قربان ناصرف پاکستان کی اندرونی معاشی سرگرمی کو فعال کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ پاکستان کو زرِمبادلہ کماکر دینے والی چمڑے کی صنعت کو خام مال فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ عیدِ قربان پر انہیں پورے سال کی طلب کی تقریباً نصف کھالیں مل جاتی ہیں۔ اس لیے جانورں کو فروخت کرنے والے بیوپاریوں کے علاوہ کھالوں کی ابتدائی صفائی کرنے والی ٹینرز بھی عیدِ قربان کا شدت سے انتظار کرتی ہیں اور اس دوران کھالوں کی خریداری کا خصوصی بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔

ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چمڑے کی بنی مصنوعات کی کھپت بہت کم ہے اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والا 95 فیصد چمڑا اور اس سے بنی مصنوعات کو برآمد کردیا جاتا ہے۔ 2014ء میں چمڑے کی مصنوعات کا برآمدات میں حصہ 5.1 فیصد تھا جو 2019ء میں گھٹ کر 3.7 فیصد تک رہ گیا۔ 1990ء کی دہائی میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات 10 فیصد سے زائد تھیں۔

عیدِ قربان چمڑے کی صنعت کو خام مال فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہے— تصویر: وائٹ اسٹار
عیدِ قربان چمڑے کی صنعت کو خام مال فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہے— تصویر: وائٹ اسٹار

مگر اب چمڑے سے بنی مصنوعات کی پاکستان سے برآمدات میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے اور گزشتہ مالی سال کے اختتام تک چمڑے اور اس کی مصنوعات کی برآمدات میں 30 فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ورلڈ فٹ ویئر کے مطابق پاکستان میں چمڑے کے جوتے بنانے کی صنعت دنیا میں ساتویں بڑی صنعت ہے اور جوتوں کی عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ 2.4 فیصد ہے۔ گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کے دوران پاکستان سے تیار کردہ چمڑے کے جوتوں کی برآمدات میں 21 فیصد اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر 13 کروڑ ڈالر مالیت کے جوتے برآمد کیے گئے۔

گزشتہ چند سال چمڑے کی صنعت میں جو گراوٹ آئی تھی اس پر چند تحریریں تفصیل کے ساتھ شائع ہوچکی ہیں۔ اس تحریر میں چمڑے کی صنعت کی بحال کے حوالے سے بات کی جائے گی۔

چمڑے کی صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عید پر قربان کیے جانے والے جانوروں کی کھالیں عام دنوں میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کی کھالوں کے مقابلے بہت بہتر ہوتی ہیں۔ عید پر قربان کیے جانے والا جانور فربہ ہوتا ہے اس لیے کھال کا حجم بھی بڑا ہوتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر جانوروں کو خوبصورتی کی بنیاد پر قربانی کے لیے چنا جاتا ہے اس لیے عام جانوروں کے مقابلے ان کی کھال کی زیادہ نگہداشت بھی ہوتی ہے۔

قربانی کے بعد گوشت تو کھانے کے استعمال میں آجاتا ہے اور جانورں سے اتری ہوئی کھال عام طور پر کسی فلاحی ادارے کو عطیہ کردی جاتی ہے اور یہی کھالیں فلاحی اداروں کی آمدن کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔ فلاحی اداروں سے کھالوں کو چمڑے کی پروسیسنگ کے پہلے مرحلے کی صنعت ٹینریز خرید لیتی ہیں۔ گزشتہ چند سال سے ان کی قیمت میں نمایاں کمی ہوئی تھی جو اس سال دوبارہ بحال ہوتی نظر آرہی ہے۔

پاکستان سے گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ میں 13 کروڑ ڈالر کے جوتے برآمد کیے گئے ہیں— تصویر: ڈان/فائل
پاکستان سے گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ میں 13 کروڑ ڈالر کے جوتے برآمد کیے گئے ہیں— تصویر: ڈان/فائل

راشد قریشی ایک فلاحی ادارے الخدمت کے ساتھ منسلک ہیں اور کئی سال سے قربانی کی کھالوں کو جمع کرنے اور انہیں ٹینریز کو فروخت کرنے کے کام کی نگرانی بھی کررہے ہیں۔ راشد قریشی کا کہنا ہے کہ ’سال 2014ء سے عالمی منڈی میں جانوروں کے چمڑے کی طلب میں کمی آنا شروع ہوئی اور گائے، بیل اور بھینس کی ایک کھال جو اس وقت 5 ہزار روپے اور بکرے یا دبنے کی کھال 500 روپے میں فروخت ہورہی تھی وہ گزشتہ سال بالترتیب محض 600 روپے اور 100 روپے یا اس سے بھی کم میں فروخت ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے الخدمت سیمت متعدد فلاحی اداروں کو مالی نقصان بھی ہوا اور اکثر نے کھالیں جمع کرنا بند کردی تھیں‘۔

راشد قریشی کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے گزشتہ 8 سال مسلسل کھالوں کے جمع کرنے میں نقصان اٹھانے کے باوجود اس عمل کو جاری رکھا ہے۔ مگر اس سال ایک مرتبہ پھر کھالوں کی قیمت بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ کمیلے (مذبح خانہ) میں آج کل ایک کھال کی قیمت 2 ہزار 300 روپے سے 2 ہزار 500 روپے تک چل رہی ہے۔ جس سے امید ہے کہ اس سال کھالوں کی اچھی قیمت ملے گی‘۔ راشد قریشی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال الخدمت کراچی نے ایک لاکھ کھالیں جمع کی تھیں جبکہ اس سال یہ تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد رہنے کی توقع ہے۔ یعنی اگر ایک لاکھ کھالیں ہی الخدمت جمع کرے تو اس کو 23 کروڑ روپے سے زائد کی آمدن ہوسکتی ہے۔

کھالوں کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کس وجہ سے آیا اس پر پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین امان اللہ آفتاب کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ ایک سال میں کھالوں کی قیمت 3 گنا تک بڑھ چکی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہے۔ گزشتہ عید پر ڈالر 150 روپے کی سطح پر تھا جبکہ اس سال 200 روپے سے تجاوز کرگیا ہے، یعنی ایک ڈالر پر 50 روپے سے زائد کا فرق پڑا ہے۔ اس سے مقامی ادائیگی بڑھ گئی ہے‘۔

امان اللہ آفتاب کا کہنا ہے کہ ’دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ غیر ملکی فیشن انڈسٹری کا رجحان واپس جانوروں کے چمڑے کی جانب ہوگیا ہے۔ کھالوں کی طلب میں چند سال قبل تک بہت تیزی ہوتی تھی۔ پاکستان کے موسمی حالات ایسے ہیں کہ یہاں چمڑے سے بنی مصنوعات زیادہ پہننے کا رواج نہیں ہے اور پاکستان میں پیدا ہونے والے چمڑے کا 90 فیصد تک بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صنعت ٹیکسٹائل کے بعد زرِمبادلہ کما کر دینے والی ملک کی دوسری بڑی صنعت ہے‘۔

فلاحی ادارے کھالیں جمع کرکے ٹینریز کو فروخت کرتے ہیں— تصویر: اے ایف پی/فائل
فلاحی ادارے کھالیں جمع کرکے ٹینریز کو فروخت کرتے ہیں— تصویر: اے ایف پی/فائل

گزشتہ کچھ عرصے میں چین کی جانب سے مصنوعی چمڑے کے متعارف کروائے جانے سے جانوروں کے چمڑے سے بنی مصنوعات کی مارکیٹ بہت متاثر ہوئی تھی اور فیشن انڈسٹری نے اصل چمڑے کے بجائے مصنوعی چمڑے کو فوقیت دینا شروع کردی تھی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ چینی مصنوعی چمڑے نے فیشن انڈسٹری کو منفی طور پر متاثر کیا تھا اور لوگوں نے تیزی سے جانور کے چمڑے کے بجائے مصنوعی چمڑے کو اختیار کیا کیونکہ بظاہر مصنوعی اور اصلی چمڑے میں بہت زیادہ فرق نظر نہیں آتا اور یہ قیمت میں بھی انتہائی کم تھی۔

اس لیے مصنوعی چمڑے کے جوتے، جیکٹس، پینٹ اور دیگر اشیا نے دنیا بھر کے فیشن اسٹوز میں جگہ بنائی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مصنوعی چمڑے کی خامیاں سامنے آنے لگیں کہ وہ بہت جلد خراب ہونے لگا۔ مصنوعی چمڑے سے بنا جوتا، جیکٹ اور دیگر اشیا مشکل سے ایک سال ہی استعمال کے قابل رہتے ہیں جس کے بعد یا تو وہ پھٹ جاتے ہیں یا پھر ان کی چمک دمک باقی نہیں رہتی۔ اس کے برعکس جانور کی کھال سے بنائی گئی مصنوعات کئی سال تک کارآمد رہتی ہیں اور انہیں پالش کرکے بار بار چمکایا اور مرمت کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مغربی فیشن انڈسٹری واپس جانور کے اصل چمڑے کو اپنا رہی ہے۔ طلب میں اسی اضافے کی وجہ سے چند دن پہلے ہی ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

جس طرح جانور کا گوشت ٹھنڈا کرکے محفوظ کیا جاتا ہے اسی طرح جانور کی کھال کو فوری طور پر محفوظ کرنا ضروری ہے۔ امان اللہ آفتاب کا کہنا ہے کہ ’گرمیوں میں ذبح ہونے والے جانور کی کھال کی قیمت عام طور پر کم ہوتی ہے اور سردیوں میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سردیوں میں کھال کم خراب ہوتی ہے‘۔

اگر قربانی کی کھالوں کو درست طریقے سے رکھا جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور جانور سے اترنے والی ہر کھال ملکی زرِمبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس کو پروسیس کرکے مصنوعات بنانے کے عمل کے دوران ملک میں ملازمتوں کے متعدد مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔

کھال کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کو اتارنے کے بعد نمک لگانا انتہائی ضروری ہے۔ یہ کھال کے خراب یا ڈی کمپوز ہونے کے عمل کو روک دیتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جانور کی کھال کو دھوپ میں رکھنے کے بجائے سائے اور ٹھنڈی جگہ پر رکھا جائے۔ اگر قربانی کے ساتھ یہ 2 احتیاط کرلی جائیں تو قیمتی کھالیں بچ سکتی ہیں اور ملکی چمڑے کی صنعت کو ضروری خام مال فراہم کرسکتی ہیں۔

راشد قریشی جو اس سال کھالوں کے جمع ہونے میں اضافہ دیکھ رہے ہیں بتاتے ہیں کہ ’الخدمت اجتماعی قربانی کے کیمپوں اور اپنے دفاتر سے کھالوں کو ہر 2 گھنٹے بعد جمع کرتی ہے اور انہیں شہر میں بنائے 2 مراکز پر پہنچاتی ہے۔ وہاں کھالوں کو فوری نمک لگا کر محفوظ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی کھال ہم تک ایسے وقت پر پہنچے کہ جب اس کی فوری طور پر منتقلی ممکن نہ ہو تو ہمارے رضاکاروں کو ہدایت ہے کہ وہ خود ہی کھالوں کو نمک لگا کر محفوظ رکھیں‘۔

کھالوں کو فوری نمک لگا کر محفوظ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے— تصویر: وائٹ اسٹار
کھالوں کو فوری نمک لگا کر محفوظ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے— تصویر: وائٹ اسٹار

امان اللہ صاحب کا کہنا ہے کہ ’پاکستان سے چمڑے کی متعدد اشیا برآمد ہوتی ہیں۔ ان میں اٹلی کی فیشن انڈسٹری کے لیے مکمل طور پر پروسیس کیا ہوا چمڑا، اس کے علاوہ چمڑے سے بنے جوتے، جیکٹس، موٹر سائیکل ریسنگ جیکٹس، بیگز، دستانے، بیلٹس، بٹوے اور فرنیچر شامل ہوتا ہے۔ پاکستان سے چمڑے اور اس کی مصنوعات کے بڑے خریداروں میں سب سے بڑا خریدار اٹلی ہے جس کے بعد چین، ویتنام، ہانگ کانگ، کوریا، اسپین، انڈونیشیا، کمبوڈیا، جرمنی اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ عالمی منڈی میں چمڑے کی تجارت میں پاکستان کو برازیل، امریکا، بھارت، نائیجریا، ترکی، ارجنٹینا، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور سربیا سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے‘۔

اپنی گزشتہ تحریر میں کھالوں کی قیمت گرنے کی وجہ سے ٹینری صنعت پر پڑنے والے اثرات کا بھی ذکر کیا تھا کہ 800 ٹینریز میں سے 70 فیصد بند ہوگئی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ گزشتہ چند برسوں میں کھالوں کی قیمتوں میں کمی اور کراچی شہر میں پانی کی فراہمی نہ ہونا ہے۔ چمڑے کے صنعت کار کراچی سے لاہور اور سیالکوٹ منتقل ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے معروف صنعت کار اور چمڑے کے بڑے ایکسپورٹر ایس ایم منیر نے بیان بھی جاری کیا تھا کہ اگر پانی کی دستیابی نہ ہوئی تو صنعتوں کو کراچی شہر سے منتقل کردیا جائے گا۔

عید الاضحٰی ایک مذہبی تہوار تو ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان کو زرِمبادلہ کما کر دینے والی دوسری بڑی صنعت کا انحصار بھی اس تہوار پر ہے۔ اس لیے جس جوش و خروش کے ساتھ عید پر جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے اسی طرح جانوروں سے اتاری گئی کھالوں کو بھی محفوظ کرنے سے ناصرف فلاحی تنظیموں کی مالی معاونت ہوتی ہے بلکہ لاکھوں افراد کو روزگار ملنے کے ساتھ ساتھ ملک کو زرِمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے عیدِ قربان پر جہاں دیگر کاموں پر توجہ دی جاتی ہے وہیں کھالوں کو محفوظ بنانے پر بھی توجہ دینا لازمی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں