امریکی صدر جو بائیڈن کی عمر 79 سال ہے۔ ان کی عمر کو لے کر میڈیا ان پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ ان کی ذہنی و جسمانی حالت اور حرکات نوٹ کی جاتی ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کا نام ’سلیپی جو‘ بھی رکھا ہوا ہے۔

امریکی صدر اپنی عمر کے حساب سے فٹ ہیں لیکن وائٹ ہاؤس میں سال گزارنے کے بعد وہ صدر رونلڈ ریگن کی عمر کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ ریگن دوسری ٹرم پوری کرتے وقت جس عمر کو پہنچے تھے بائیڈن اس کو کراس کرچکے ہیں۔ بائیڈن ذہنی جسمانی طور پر فٹ ہیں لیکن ان کے مشیر پریشان ہی رہتے ہیں کہ بائیڈن چلتے ہوئے لڑکھڑا نہ جائیں، بات کرتے کوئی جملہ یا لفظ ادا نہ کرسکیں یا کچھ اور نہ کہہ دیں۔

یروشلم پوسٹ نے نیویارک ٹائم کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سی باتیں اضافی لکھی ہیں۔ جیسے یہ بتایا ہے کہ صدر بائیڈن کے لیے رات کی کوئی مصروفیت نہیں رکھی گئی۔ ملاقاتوں میں آرام کا وقفہ رکھا گیا ہے۔

آپ نیویارک ٹائم اور یروشلم پوسٹ دونوں کی رپورٹ پڑھ سکتے ہیں۔

5 دہائیاں اور 10 اسرائیلی دورے ، یہ ہارٹز کی سرخی ہے۔ اپریل 2015ء میں اسرائیل کے یومِ آزادی پر ایک اجتماع سے جو بائیڈن نے خطاب کیا۔ یہودی آفیشل، ان کے حمایتی سپوٹر لابی ایسٹ اور عام یہودیوں کے اس اجتماع سے بات کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ ’آپ سب مجھے جانتے ہیں، آپ نے مجھے بنتے دیکھا ہے، آپ نے مجھے بنایا ہے، مجھے پڑھایا ہے، میں نے آپ میں سے بہت سوں کے ساتھ 40 سال کام کیا ہے۔ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں اور میں ایک صیہونی ہوں‘۔

بائیڈن نے کہا کہ ’صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں اور میں ایک صیہونی ہوں‘
بائیڈن نے کہا کہ ’صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں اور میں ایک صیہونی ہوں‘

ہارٹز کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے اسرائیل کی بہت حمایت کی ہے۔ اسرائیل کو امداد دلوائی، اس امداد کو بہترین امریکی سرمایہ کاری کہا لیکن جب امن اور اسرائیل کی بات آتی ہے تو بائیڈن پھر اس لیفٹ سے تعلق رکھنے والے یہودی کی طرح ہوجاتے ہیں جو اسرائیلی فوج میں لازمی سروس بھی کرتا ہے اور اپنی حکومت سے شاکی بھی رہتا ہے کہ یہ امن کے مواقع ضائع کرتی ہے۔

اسرائیلی حکام کو امریکا میں ٹف ٹائم دینے والوں میں بائیڈن پہلے نمبر پر رہے۔ لبنان پر حملے کے بعد جب اسرائیلی وزیرِاعظم مناخم بیگن امریکا پہنچے تو ریگن کے ساتھ ان کی ملاقات خوشگوار رہی۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ان کی جھڑپ بائیڈن کے ساتھ ہوگئی جہاں بائیڈن نے لبنان حملے سے زیادہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ تعمیراتی پالیسی پر تنقید کی اور امداد بند کرنے کی دھمکی دی۔ میز پر مکے مارے تو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ بائیڈن یہ رائٹنگ ٹیبل ہے مکے مارنے کو نہیں بنی۔ مجھے دھمکیاں مت دو، میں فخریہ یہودی ہوں اور اپنے 3 ہزار سال کی ثقافت پر فخر کرتا ہوں۔ دھمکیوں سے مؤقف نہیں بدلوں گا۔

ایلن پنکاس سابق اسرائیلی سفارتکار ہیں۔ انہوں نے ہارٹز کے لیے بائیڈن کے دورے اور شخصیت پر ایک تبصرہ کیا ہے۔ ایلن کا کہنا ہے کہ جب بل کلنٹن امریکی صدر منتخب ہوئے تو اگلے دن میں اپنے وزیرِ خارجہ شمعون پیریز کو کلنٹن کے حوالے سے اپ ڈیٹ کرنے گیا۔

ایلن کا کہنا ہے کہ وہ نوجوان تھے، خود کو بہت کچھ سمجھتے تھے اور چاہ رہے تھے کہ اپنے وزیرِ خارجہ کو نئے امریکی صدر کے حوالے سے آگاہ کریں۔ شمعون پیریز نے میری بات کو نظر انداز کیا۔ وہ چین کی تاریخ پر ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔ کتاب سے نظر ہٹائے بغیر پیریز نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ ایلن نے کہا کہ میں آپ کو نئے امریکی صدر کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔

پیریز نے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا اور ساتھ کہا کہ ’دیکھو میں ہیری ٹرومین سے لے کر ہر امریکی صدر سے مل چکا ہوں۔ آئیزن ہاور سے مختصر ملاقات رہی، پھر جان ایف کینیڈی سے ملا، لینڈن بی جانسن سے ملا، رچرڈ نکسن سے ملا، جیرالڈ فورڈ سے ملا، جیمی کارٹر، ریگن اور جارج بش سے ملا۔ کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ تمہارے پاس مجھے کچھ بتانے کو ہے جبکہ اس لڑکے کلنٹن کو منتخب ہوئے ابھی 12 گھنٹے نہیں گزرے‘۔

بل کلنٹن اور شمعون پریز— تصویر: ٹوئٹر 42BillClinton@
بل کلنٹن اور شمعون پریز— تصویر: ٹوئٹر 42BillClinton@

ایلن اس کے بعد لکھتا ہے کہ بائیڈن وہ امریکی صدر ہے جو اپنے اس دورے کے بعد آنے والے اسرائیلی وزرائے اعظم کو بھی جانتا ہوگا۔ پرانوں سے وہ پہلے ہی مل چکا ہے اور کتنے واقعات کا وہ خود حصہ رہا ہے، کتنی دستاویزات پر اس کے دستخط ہیں، گویا یہ 50 سال کی کہانی ہے۔ یہ اسرائیل-امریکا تعلقات کا شاہد رہا ہے۔ یہ آخری امریکی صدر ہے جس نے اسرائیل-امریکا تعلقات کو بڑھتے بنتے دیکھا ہے۔ یہ ہمارے شمعون پیریز کا امریکی جواب ہے۔

اگر آپ پڑھتے ہوئے یہاں تک آگئے ہیں تو ان جھلکیوں سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ امریکی صدر کے اس اسرائیلی دورے کو کس کس طرح سے جانچا جا رہا ہے۔

اس دورے پر ہی آئی ٹو یو ٹو (I2U2) ورچوئیل اجلاس ہونا ہے۔ 2 آئی یعنی اسرائیل اور انڈیا اور 2 یو یعنی یو ایس اور یو اے ای ایک اتحاد بنانے جارہے ہیں۔ سعودی عرب اسرائیل سے ہر قسم کی فلائٹ کو اپنی فضاؤں سے گزرنے کی اجازت دینے والا ہے۔ اس کا پہلا اثر یہ ہونے جا رہا کہ اسرائیل سے بھارت کا سفر 8 گھنٹے سے کم ہوکر 5 گھنٹے رہ جائے گا۔ خلیج کے ملک ایک مشترکہ دفاعی نظام میں شامل ہونے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل ایران کے خلاف عرب ممالک کو ایک دفاعی شیلڈ مہیا کرنے جا رہا ہے جس کی امریکی حمایت کر رہے ہیں۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹین ایران کے دورے پر آرہے ہیں جہاں ترک صدر بھی پہنچ رہے ہیں۔ یہ اس دورے کا ہی ایک جواب سمجھا جا رہا۔

ملا یعقوب قطر سے ہوکر واپس کابل پہنچے ہیں۔ قطر افغانستان ایک دفاعی معاہدہ کرنے والے ہیں۔ ملا یعقوب کا کہنا ہے کہ معاہدہ اچھا ہے اور ہم اس پر غور کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے قطر سے کہا ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کو تنخواہیں دے، وردیاں دے اور اسلحہ فراہم کرے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق قطر نے اس معاہدے پر امریکا اور یورپ سے بات کی ہے اور افغانستان سے کہا ہے کہ وہ اپنی عالمی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔

روسی اور ترک صدور بھی ایران کا دورہ کرنے والے ہیں— تصویر: اے ایف پی/فائل
روسی اور ترک صدور بھی ایران کا دورہ کرنے والے ہیں— تصویر: اے ایف پی/فائل

امیر قطر بھی سعودی عرب میں خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں شریک ہوں گے جہاں امریکی صدر بائیڈن بھی اس کونسل کے علاوہ مصر عراق اور اردن کے رہنماؤں سے بھی ملیں گے۔

بائیڈن نے اسرائیلی وزیرِاعظم سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار بنانے سے روکا جائے گا۔ ایسا ہونے سے روکنے کے لیے آخری آپشن طاقت کا استعمال ہوگا۔ طاقت کے اس استعمال کا بہت اچھا تجزیہ یروشلم پوسٹ نے کیا ہے جس میں اس پر بحث کی گئی ہے کہ امریکی طاقت کا کب استعمال کریں گے۔ اسرائیل کب کرے گا۔ ایرانی آیت اللہ امریکا کے لیے تو کوئی براہِ راست خطرہ نہیں ہیں۔ نہ ایرانی میزائل امریکا پہنچ سکتے۔

اسرائیل کے کون سے لیڈر کیا پتا لگنے پر 3 مہینے پہلے ہی کارروائی کرنے پر یکسو ہیں۔ امریکی ایٹم بم بنانے کے بعد بھی ایسا نہیں کریں گے کہ یہ ان کے لیے براہِ راست خطرہ نہیں ہے۔

یہ بحث اگر ہم پڑھیں تو ہم اندازہ لگا سکیں گے کہ عرب ملک کیوں امریکا کے بجائے اسرائیل کے نزدیک ہو رہے ہیں۔ ایسا ہونے سے ہماری اہمیت میں کمی آئے گی یا نہیں؟

یہ سارا خطہ اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ ہمارے دوست اور حریف ملک پوزیشن بدل رہے ہیں۔ بھارت جی ٹوئنٹی (G20) کا اجلاس کشمیر میں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں عرب ملک بھی شریک ہوں گے۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات بس ایک ہے کہ جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا اس سب کا اثر تو ہم پر لازمی پڑے گا لیکن ہم کہیں اس میں متعلق ہیں؟ اس کو دیکھ سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟

ہمارے پاس کسی سفارتی پہل کاری کے لیے گنجائش کتنی رہ گئی ہے جبکہ ہم معیشت کے لیے مجبور بھی ہیں کہ انہی دوست ملکوں کی طرف دیکھیں جو خود اب کہیں اور دیکھ رہے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

عامر کاکازئی Jul 15, 2022 02:33pm
قطر افغانستان ایک دفاعی معاہدہ کرنے والے ہیں۔ تیرا کیا ہو گا کالیا؟ بہترین تحریر