پاکستان دنیا میں آلودگی پھیلانے والے ممالک کی فہرست میں نچلے درجے پر ہونے کے باوجود ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 بڑے ممالک میں شامل ہے۔ بے وقت بارشیں، معمول سے زائد برفباری، ایک کے بعد ایک آنے والی شدید گرمی کی لہر اور دیگر عوامل نے لوگوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔

میں ذاتی طور پر اس وقت تک ماحولیات کے حوالے سے بہت زیادہ حساس نہیں تھا جب تک میں نے گزشتہ سال دسمبر میں لاہور کا سفر نہیں کیا تھا۔ لاہور کا تصور میرے ذہن میں باغوں کے شہر کے طور پر ابھرتا تھا۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہمیشہ موسمِ گرما میں ہی لاہور جانا ہوا مگر اس سال سردیوں میں مجھے اسموگ جھیلنے کا موقع ملا۔

کراچی کی عمارتوں پر جس طرح بھوری یا سنہرے رنگ کی گرد چمکتی ہے ویسے ہی لاہور میں عمارتوں پر سیاہ دھول جمی دیکھی۔ رات سونے سے قبل برش کرتے ہوئے حلق سے کالے بلغم نے صورتحال کی سنگینی کا احساس مزید گہرا کردیا اور میں بھی دیگر لوگوں کی طرح اس بات کا قائل ہوگیا کہ اگرچہ فضا کو آلودہ کرنے میں ہمارا کردار بہت زیادہ نہ ہو مگر اس کے باوجود ہمیں اس حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اب ہر کمپنی بلکہ افراد بھی اپنے کاربن اخراج کو نیٹ زیرو کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ انسان جو ایندھن استعمال کررہا ہے اس سے فضا میں زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہورہا ہے جس سے ہمارے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ موسم کو مزید گرم ہونے سے بچانے کے لیے فضا میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو روکنا ہوگا۔ اس کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر روک دیا جائے۔ تاہم فضائی سفر اور پیداواری شعبوں میں حال یا مستقبل قریب میں یہ ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔

موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے گلاسگو میں ایک معاہدہ کیا گیا جس کو ’سی او پی 26‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت ہر ملک کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ وہ اپنے کاربن کے اخراج کو نصف کرسکے۔ اس حوالے سے منصوبوں اور فنڈنگ کی فراہمی کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے۔

پاکستان نے سی او پی 26 میں 2030ء تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو 50 فیصد تک کم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس میں سے 15 فیصد کام اپنے وسائل سے جبکہ 35 فیصد عالمی منڈی کی جانب سے ملنے والی فنڈنگ کے ذریعے کیا جائے گا۔

پاکستان بجلی کی پیداوار کا 60 فیصد متبادل ذرائع پر منتقل کرے گا جس میں پن بجلی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ 30 فیصد گاڑیوں کی فروخت الیکٹرک گاڑیوں پر منتقل کرے گا۔ سال 2020ء کے بعد کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ کو نہیں چلائے گا۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے 2 پاور پلانٹس کا منصوبہ ترک کردے گا اور پن بجلی اور مقامی کوئلے کی گیسی فیکیشن کرے گا۔

سیال ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں

سیال ایندھن یعنی پیٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فضائی آلودگی اور بڑھتے درجہ حرارت میں سڑکوں پر رواں دواں گاڑیوں کا حصہ 25 فیصد ہے۔ یہ خدشہ ہے کہ اگر ٹرانسپورٹ کے نظام میں فوری طور پر کوئی تبدیلی نہ کی گئی تو 2050ء تک یہ شعبہ 87 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز کو فضا میں چھوڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے اب کمپنیاں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں یا ہائبرڈ گاڑیوں کی جانب رخ کررہی ہیں۔

یورپی یونین نے سال 2035ء یعنی آج سے 13 سال بعد کمبسشن انجن یعنی سیال ایندھن پر چلنے والے انجن بنانے پر پابندی کا اعلان کردیا ہے۔ یورپ میں اس سال کے بعد نہ تو کوئی گاڑی کمبسشن انجن پر بنائی جائے گی، نہ ہی چلائی جائے گی اور نہ ہی درآمد کی جاسکے گی۔ اس پابندی کے ساتھ ہی جنرل موٹرز، مرسڈیز، فورڈ اور والوو نے سال 2035ء سے 2040ء کے درمیان کمبسشن انجن کی پیداوار کو بند کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ ٹویوٹا، والکس ویگن اور نسان نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

سیال ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں— تصویر: رائٹرز
سیال ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں— تصویر: رائٹرز

اب معاملہ یہ ہے کہ پاکستان نے بھی عالمی فورمز پر کمبسشن انجن کی جگہ الیکٹرک گاڑیوں کو استعمال کرنے کا وعدہ کیا ہے اور 30 فیصد گاڑیاں سال 2030ء تک الیکٹرک پر منتقل کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے گاڑیاں بنانے والے پالیسی سازوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ کیا پاکستان میں فوری طور پر الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروائی جائیں یا پھر سیال ایندھن اور بیٹری سے چلنے والی ہائبرڈ گاڑیاں پر ہی انحصار کیا جائے۔ پاکستان کے موجودہ انرجی مکس اور دستیاب انفرااسٹرکچر کی روشنی میں ان دونوں قسم کی گاڑیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

مکمل الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑی میں فرق

کہتے ہیں پانی کی گہرائی کا پتا تو اسی وقت چلتا ہے جب اس میں اتر کر دیکھا جائے تو ایسا ہی کچھ ہمارے دوست کے ساتھ ہوا جنہوں نے ایک مشہور برانڈ کی الیکٹرک گاڑی خرید لی اور پھر انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کرلیا ہے۔ اب گاڑی چلاتے وقت ایک نگاہ اگر گاڑی کی رفتار پر رکھنا ہوتی ہے تو ساتھ ہی گاڑی کی کتنی بیٹری باقی رہ گئی ہے اسے بھی دیکھتے رہنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑی کی چارجنگ کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔

انہوں نے ایک آن لائن اسٹور سے چارجنگ کٹ خریدی مگر پوری رات گاڑی کو چارج کرنے کے باوجود بیٹری مکمل طور پر چارج نہیں ہوتی ہے جبکہ کراچی شہر میں الیکٹرک گاڑی کو چارج کرنے کے مواقع بھی بہت کم ہیں۔

اگر آپ الیکٹرک گاڑی چلا رہے ہیں تو اس کے لیے یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ آپ کے سفر کا دو طرفہ فاصلہ کتنا ہے۔ موصوف اپنی مہنگی ترین گاڑی کو صرف دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ کراچی شہر میں اگر گلشن حدید سے کراچی کی بندرگاہ تک کا سفر کرنا ہو تو یہ یکطرفہ سفر ہی 40 کلو میٹر سے زائد پڑتا ہے۔ اگر شہر میں طویل فاصلے کا سفر درپیش ہو یا پھر شہر سے باہر جانا ہو تو موصوف اپنے بھائی کی ہائبرڈ گاڑی جس کو بجلی اور سیال ایندھن دونوں پر چلایا جاسکتا ہے کو استعمال کرتے ہیں۔

الیکٹرک گاڑی چلا رہے ہیں تو اس کے لیے یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ آپ کے سفر کا دوطرفہ فاصلہ کتنا ہے— تصویر: پی پی آئی
الیکٹرک گاڑی چلا رہے ہیں تو اس کے لیے یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ آپ کے سفر کا دوطرفہ فاصلہ کتنا ہے— تصویر: پی پی آئی

پیٹرول پمپس شہر میں جابجا دستیاب ہیں جبکہ الیکٹرک کاروں کو چارج کرنے کے لیے اوّل تو چارجنگ کے مراکز دستیاب نہیں یا پھر اگر دستیاب ہو بھی جائے تو اس گاڑی کو چارج کرنے کے لیے کم از کم 30 سے 45 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اب نہ تو یہ دورانیہ گاڑی میں بیٹھ کر گزارا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان چارجنگ اسٹیشنز پر یہ سہولت موجود ہے کہ وہاں کسی جگہ آرام کر لیا جائے کیونکہ سی این جی اور پیٹرول پمپس اسٹیشن اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ چند منٹوں میں پیٹرول یا گیس بھر دیتے ہیں اور گاڑی چلی جاتی ہے۔

یہ تو تھیں ہمارے دوست کی ذاتی مشکلات مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کے انرجی مکس پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔

پاکستان میں بجلی کا انرجی مکس

وہ ممالک جہاں بڑے پیمانے پر الیکٹرک گاڑیاں استعمال کی جارہی ہیں وہاں انرجی مکس یا بجلی کی پیداوار کاربن اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے بجائے متبادل توانائی یعنی شمسی، پن بجلی، پون بجلی یا پھر ایٹمی بجلی پر منحصر ہے۔ جیسے ڈنمارک میں 72 فیصد پیداوار متبادل توانائی پر ہورہی ہے، اسی طرح ناروے میں 99 فیصد گرین توانائی، فرانس میں 89 فیصد ایٹمی اور گرین توانائی استعمال ہورہی ہے اور انہی ملکوں میں الیکٹرک گاڑیاں استعمال کی جارہی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان میں دیکھا جائے تو زیادہ تر بجلی درآمدی اور مہنگے ایندھن پر بنائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر بجلی گھر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں دستیاب انرجی مکس کے مطابق ملک میں تقریباً 60 فیصد بجلی ایسے ایندھن سے بنائی جاتی ہے جو فضائی آلودگی پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔ اس میں 23.8 فیصد آر ایل این جی، 14.3 فیصد فرنس آئل، 12.80 فیصد کوئلے اور 8.5 فیصد مقامی قدرتی گیس سے تیار کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ پانی سے بنائی جانے والی بجلی کا حصہ 24.7 فیصد، ایٹمی توانائی کا حصہ 8.8 فیصد، پون یا ہوائی چکیوں سے حاصل ہونے والی بجلی 4.8 فیصد، شمسی توانائی 1.4 فیصد جبکہ بھگاس سے 0.98 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

ملک میں بننے والی 60 فیصد توانائی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہے
ملک میں بننے والی 60 فیصد توانائی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہے

پاکستان کے لیے بجلی بنانے والے ایندھن سے پھیلنے والی آلودگی کے علاوہ درآمدی بل پر پڑنے والا ضرب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عالمی سطح پر ایندھن مہنگا ہورہا ہے جس کی وجہ سے درآمدات مہنگی ہورہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی سالانہ ایندھن کھپت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ وفاقی حکومت کے جاری کردہ معاشی جائزے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی ایندھن کی درآمد میں تقریباً 96 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مالی سال کے 10 ماہ کے دوران پاکستان نے 17.03 ارب ڈالر کا ایندھن درآمد کیا جبکہ مالی سال 21ء-2020ء کے اسی عرصے میں توانائی کا درآمدی بل 8.69 ارب ڈالر تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے مستقبل قریب میں ایندھن کے مزید مہنگا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ امریکی بینک جے پی مورگن کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکی اور یورپی ممالک نے روسی تیل پر پابندیاں عائد کیں تو عالمی منڈی میں خام تیل کی فی بیرل قیمت 380 ڈالر سے بھی تجاوز کرجائے گی۔

یوں پاکستان کو الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے دو دھاری تلوار کا سامنا ہے اور سب سے پہلے تو پاکستان میں توانائی کا مکس زیادہ تر ایسے ایندھن پر مشتمل ہے جو فضائی آلودگی بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس لیے اگر ایسی پیدا کردہ بجلی سے گاڑیاں چارج کرکے چلائی جائیں تو یہ پھر بھی ماحولیاتی آلودگی ختم یا کم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔ جبکہ اس کے علاوہ پاکستان کو ایندھن کی خریداری کے لیے سرمائے کی قلت کا سامنا بھی ہے۔ اس لیے درآمدی ایندھن سے بنائی گئی بجلی پر اگر گاڑیاں چلائی جائیں تو اس سے بچت بھی نہیں ہوگی۔

تو پھر اس کا حل کیا ہے۔ ماہرین اس کا حل فی الحال ہائبرڈ گاڑیاں قرار دیتے ہیں۔ تو پہلے جان لیتے ہیں کہ ہائبرڈ گاڑیاں کام کیسے کرتی ہیں۔

ہائبرڈ گاڑیاں کام کیسے کرتی ہیں؟

ہائبرڈ گاڑیاں 3 طرح کی ہوتی ہیں۔ منی ہائبرڈ گاڑی 5 سے 10 فیصد کی بچت کرتی ہے۔ مائلڈ ہائبرڈ گاڑی ایندھن کی 20 سے 30 فیصد ایندھن کی بچت کرتی ہے جبکہ مکمل ہائبرڈ گاڑی 35 فیصد تک ایندھن کی بچت کرسکتی ہیں۔ روایتی کمبسشن انجن والی گاڑی ایک لیٹر میں 10 سے 12 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے جبکہ اس کے مقابلے مکمل ہائبرڈ گاڑی ایک لیٹر میں 20 سے 25 کلومیٹر تک فاصلہ طے کرتی ہے۔ اس طرح ہائبرڈ گاڑیوں سے ایندھن کی تقریباً 50 فیصد تک بچت کی جاسکتی ہے۔

مکمل ہائبرڈ گاڑی ایک کمبسشن انجن اور بیٹری سے چلنے والی موٹرز کا مجموعہ ہوتی ہے۔ انجن وقفے وقفے سے چلتا ہے اور گاڑی کی بیٹریوں کو ضرورت کے مطابق چارج کرتا رہتا ہے۔ جب بیٹری ضرورت کے مطابق چارج ہوجاتی ہے تو انجن بند ہوجاتا ہے اور اگر گاڑی سگنل پر رکی ہو تو کمبسشن انجن والی گاڑیوں کے مقابلے ہائبرڈ گاڑی کسی قسم کا ایندھن استعمال نہیں کرتی ہے۔ ہائبرڈ گاڑی کو شہر میں چلانا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے کیونکہ بریک لگانے پر جو توانائی پیدا ہوتی ہے اس سے بھی بیٹری چارج ہوتی ہے۔

آٹو موبل سیکٹر سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ہائبرڈ گاڑیوں کو چارج کرنے کے موجودہ انفرااسٹرکچر میں معمولی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہائبرڈ گاڑیوں کے لیے کسی خاص قسم کے چارجنگ اسٹیشن کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں عام پمپس سے ایندھن بھروایا جاسکتا ہے اور اس گاڑی کی بیٹری چارج کرنے کے لیے طویل انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا بلکہ کمبسشن انجن گاڑیوں کی طرح بس اس میں ایندھن بھروائیں اور فراٹے بھریں۔

ہائبرڈ گاڑی سے آپ ایندھن کی 50 فیصد تک بچت کرسکتے ہیں— تصویر: اے ایف پی/ فائل
ہائبرڈ گاڑی سے آپ ایندھن کی 50 فیصد تک بچت کرسکتے ہیں— تصویر: اے ایف پی/ فائل

جرمنی میں جو گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں وہ عام پیٹرول پمپ سے یکسر مختلف ہیں۔ وہاں ایک بڑی کار پارکنگ میں مختلف گاڑیوں کے لیے مختلف چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریسٹورنٹ، وائی فائی، بچوں کے لیے پلے ایریا اور کام کرنے والوں کے لیے ورکنگ اسٹیشن کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

کراچی میں گورنر ہاؤس کے قریب ایک جرمن کمپنی نے الیکٹرک گاڑیوں کا چارجنگ اسٹیشن قائم کیا ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب میں بجلی پیدا کرنے والے آلات بنانے والی جرمن کمپنی کے پاکستان میں سربراہ مارکوس کا کہنا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے شمسی توانائی کی بنیاد پر اسٹیشن قائم کرنا ہوں گے کیونکہ گرڈ کی موجودہ بجلی نہایت مہنگی ہے اور اس کا انرجی مکس بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ ماحولیات کو بہتر بنائے۔ اس چارجنگ اسٹیشن کے مالک کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت کے حوالے سے اس اسٹیشن پر ایک یونٹ چارجنگ 80 روپے تک پڑسکتی ہے۔

اس میں سب سے بڑا مسئلہ نیپرا کی جانب سے عائد کیے جانے والے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ہیں جو عالمی سطح پر ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ چارجز ڈیسکوز فوری طور پر وصول نہیں کرتے بلکہ نیپرا کو درخواست دیتے ہیں اور اس کی منظوری کے بعد یہ چارجز لاگو ہوتے ہیں۔ اگر یہ چارجز بہت زیادہ بڑھ جائیں تو چارجنگ اسٹیشن کا مالک تو گاڑی والوں کو ڈھونڈتا ہی رہ جائے گا۔

پاکستان کو مہنگے ہوتے ایندھن اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے تیزی سے کام کرنا ہوگا اور کمبسشن انجن کی جگہ الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کروانے سے قبل آئندہ چند سال تک ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کو فروغ دینا ہوگا۔ یعنی دو سنگ میل کے درمیان ہائبرڈ گاڑیاں ایک پڑاؤ ہیں منزل نہیں۔

ان گاڑیوں کو ملک میں متعارف کروانے سے فضائی آلودگی میں کمی کے ساتھ ساتھ ایندھن کی بچت بھی ہوگی جس کی پاکستان کو سخت ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کو ایک موقع بھی فراہم کرتی ہیں کہ سال 2030ء سے پہلے پہلے بجلی کی پیداوار کے حوالے سے فیول مکس کو بہتر بنانے اور متبادل توانائی کے منصوبے لگانے تک ہائبرڈ گاڑیوں کو فروغ دیا جائے۔

تبصرے (1) بند ہیں

عبداللہ Jul 23, 2022 07:13pm
اچھی معلومات تحریر ہے۔ ویل ڈن راجہ کامران