وہ آگ جس نے صرف جنگلات ہی نہیں لوگوں کے روزگار بھی تباہ کردیے

جنگلات میں یہ آگ دو ہفتوں تک لگی رہی— فائل فوٹو
جنگلات میں یہ آگ دو ہفتوں تک لگی رہی— فائل فوٹو

45 سالہ مسام خان کچی مٹی کے بنے اپنے گھر کے باہر بیٹھے تھے۔ وہ سکتے کے عالم میں کسی سوچ میں گم تھے۔ ان کے بچے ننگے پیر ان کے گرد دوڑ بھاگ رہے تھے اور اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کے والد اس عالم میں کیوں بیٹھے ہیں۔

مسام بہت ہی مایوسی کے عالم میں اپنے سامنے موجود چلغوزے کے جلے ہوئے درختوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بمشکل ہی اپنے آنسو روک پارہے تھے لیکن انہیں اپنے گھر والوں کے سامنے اپنی کمزوری ظاہر نہیں کرنی تھی۔

کوہ سلیمان خطے کے شرغلئی علاقے کے رہائشی اب تک اپنی بدقسمتی پر افسوس کرتے ہیں۔ مسام چلغوزے کے جن درختوں کی دیکھ بھال کررہا تھے اس سے رواں سال اچھے منافع کی توقع تھی۔ یوں بڑھتی مہنگائی میں وہ اپنے بچوں کی بہتر دیکھ بھال کرسکتے تھے لیکن ان کی تمام تر امیدیں جنگل میں لگنے والی آگ کی نذر ہوگئیں۔

مسام کا کہنا ہے کہ اطراف کے علاقوں میں آگ پہلے ہی پھیلنا شروع ہوچکی تھی اور ان کی اہلیہ اور بچے فکرمند تھے کہ آگ ان کے گھر تک بھی پہنچ جائے گی۔ مسام نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے گھر والوں کو ’خوف تھا کہ آگ انہیں سوتے ہوئے جلا ڈالے گی‘۔

جب آگ ان کے گھر کے قریب آنے لگی تو مقامی انتظامیہ اور رضاکاروں نے مسام کے خاندان اور دیگر خاندانوں کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کردیا۔ مسام نے بتایا کہ ان کے لیے ٹینٹوں کا انتظام کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور دیگر کسان تب بھی قریب سے صورتحال کا جائزہ لینا چاہتے تھے لیکن جب آگ اس علاقے تک پہنچی تو ان کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔

وہ صرف اپنی برسوں کی محنت اور مستقبل کی آمدن کو جل کر خاکستر ہوتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔

جب مقامی افراد کوہ سلیمان پر لگنے والی آگ سے مقابلہ کررہے تھے تو باقی ملک اس صورتحال سے بے خبر تھا۔ 9 مئی کو فیس بک پر ایک ویڈیو گردش کرنے لگی جس میں کوہ سلیمان کی سب سے بلند چوٹی پر لگنے والی تباہ کن آگ کو دکھایا گیا تھا۔ سب سے پہلے یہ آگ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے قریب دھانہ سر درازندہ میں لگی اور پھر تیز ہواؤں کی وجہ سے یہ آگ تیزی سے پہاڑ کی دوسری جانب بھی پھیل گئی۔

ہوا کے دوش پر یہ بھڑکتے شعلے بہت تیزی سے پھیلتے ہوئے پہاڑ کی ڈھلانوں میں لگے چلغوزے کے اونچے درختوں کو تباہ کرتے گئے۔ 16 مئی کو سمازئی اور شرغلئی کے علاقوں میں بھی آگ پھیلنا شروع ہوگئی اور زرغون زوار تک پہنچ گئی۔

مقامی افراد جن کی اکثریت چلغوزے کے جنگلات سے براہِ راست مستفید ہوتی اس پوری صورتحال میں بے یار و مددگار تھے۔ کوہ سلیمان کے قریب سر لکی گاؤں کے 3 افراد آگ بجھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جھلس کر ہلاک ہوئے۔ ان کی لاشیں بھی ناقابلِ شناخت تھیں۔

بلآخر صوبائی اور وفاقی حکومت نے اس آگ کا نوٹس لیتے ہوئے امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ وزیرِاعظم نے متعلقہ حکام کو فوری کارروائی کی ہدایت بھی کی اور ساتھ ہی کئی اعلیٰ حکام اور وزرا بھی سر لکی میں قائم کیمپ کا دورہ کرنے لگے۔

مقامی رضاکاروں کے ساتھ ساتھ فرنٹیئر کور اور لیویز کے اہلکاروں اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے کئی روز تک اس آگ کو بجھانے کی جدوجہد کی۔ آگ بجھانے والے کیمیکل اور 400 فائر بالز کے استعمال کے بعد بھی یہ آگ نہ بجھی۔ آگ بجھانے کے لیے آرمی ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد لی گئی لیکن وہ بھی بے سود ثابت ہوئے۔

بلآخر 14ویں روز ایران سے آگ بجھانے والا جہاز ایلوشن 76 آیا جس نے آگ کو بجھایا اور اسے مزید پھیلنے سے روکا۔ اس کے نتیجے میں جنگل مزید تباہی سے بچ گیا۔ اسی ایرانی جہاز نے حال ہی میں ترکی، آرمینیا اور جارجیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ بھی بجھائی تھی۔ فضا سے پانی ڈالنے کے علاوہ فائر لائن اور خندق کھودنے جیسے روایتی طریقے بھی آگ کو محدود رکھنے میں مددگار ثابت ہوئے۔

یہ تمام تر کاوشیں بلآخر رنگ لائیں لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور بہت زیادہ نقصان ہوچکا تھا۔

کتنا نقصان ہوا؟

اگرچہ کوہ سلیمان پر لگنے والی آگ ایک قدرتی چیز ہوسکتی ہے لیکن اس کی وجوہات کا اب تک تعین نہیں کیا گیا ہے۔ مختلف حکام اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔

بلوچستان کے سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات دوستانی جمالدینی کا کہنا ہے کہ آگ سلیمان پہاڑی سلسلے کے نزدیک موسٰی خیل زمری میں آسمانی بجلی کے باعث شروع ہوئی۔ دوسری جانب ضلعی فارسٹ آفیسر محمد عتیق کا خیال ہے کہ یہ آگ قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے شروع ہوئی۔

اس آگ کی اصل وجہ کی کھوج لگانی چاہیے اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات سے بچا جاسکے۔

ایک اندازے کے مطابق اس آگ کے نتیجے میں کم از کم ایک تہائی جنگل متاثر ہوا ہے۔ پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کی جانب کی جانے والی ابتدائی جانچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً 15 دنوں تک تیزی سے پھیلنے والی اس آگ کے نتیجے میں چلغوزے اور زیتون کے لگ بھگ 19 لاکھ درخت جل گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس نقصان کا ازالہ ہونے میں 100 سال کا وقت لگے گا۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) پاکستان کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق اس آگ کے نتیجے میں ایک ہزار 542 ہیکٹر پر محیط مقامی افراد کے زیرِ ملکیت جنگل میں چلغوزے کے 8 لاکھ 40 ہزار 50 درخت متاثر ہوئے ہیں۔ اس آگ کے نتیجے میں تقریباً 4 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو کئی افراد کو نہ صرف رواں سال کی آمدن اور گھروں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے بلکہ ان کی مستقبل کی آمدن کے ذریعہ بھی ختم ہوگیا ہے۔

پائن کونز کو اونٹ پر لادا جارہا ہے—تصویر: لکھاری
پائن کونز کو اونٹ پر لادا جارہا ہے—تصویر: لکھاری

کوہ سلیمان پہاڑی سلسلہ خوبصورت اور محسور کن مناظر سے مالا مال ہے۔ ساتھ ہی یہ اونچائی پر واقع دنیا کے سب سے بڑے چلغوزے کے جنگلات کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں مقامی چلغوزے کے علاوہ نشتر کے درخت اور نایاب جنگلی جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ منفرد جنگل یہاں کی 90 فیصد مقامی آبادی کے روزگار کا بھی ذریعہ ہے اور یہاں طرح طرح کے مقامی پھول پودے بھی موجود ہیں۔

پاکستان دنیا میں چلغوزہ پیدا کرنے والے سرفہرست 5 ممالک میں سے ایک ہے اور بعض اندازوں کے مطابق خشک میوہ جات کی عالمی طلب کا 15 فیصد پورا کرتا ہے۔ ملک میں چلغوزے کی کُل پیداوار کا تقریباً 74 فیصد سلیمان پہاڑی سلسلے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے میں چلغوزے کے جنگلات 26 ہزار ہیکٹر (ایک ہیکٹر میں تقریباً 970 درخت ہوتے ہیں) پر پھیلے ہیں۔ ان جنگلات سے سالانہ تقریباً 6 لاکھ 75 ہزار کلوگرام (675 میٹرک ٹن) چلغوزہ حاصل ہوتا ہے اور چلغوزے کے ہر درخت کی مالیت سالانہ 25 سے 35 ہزار ہوتی ہے۔

ڈاکٹر فیض الباری ایف اے او کے نیچرل ریسورسز ایڈوائزر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چلغوزے کے درخت صرف درخت ہی نہیں بلکہ مقامی افراد کا ذریعہ معاش بھی ہیں۔ چلغوزے کا درخت عموماً 30 سال کی عمر میں پھل دینا شروع کرتا ہے۔ ان جنگلات میں 200 سال پرانے درخت بھی موجود ہیں لیکن اکثر درخت درمیانی یا کم عمر کے ہیں۔ ان درختوں کو دوبارہ لگانے اور انہیں پھل دینے کی عمر تک لانے میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔

نقصان کی ذاتی قیمت

مسام خان کا کہنا ہے کہ وہ چلغوزے کی فصل سے تقریباً 10 لاکھ روپے سالانہ کا منافع کماتے تھے۔ وہ جس علاقے میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، شادی کی وہاں نہ سڑک ہے نہ ہی بجلی، نہ ہی صحت کی سہولیات ہیں اور نہ ہی بچوں کے لیے معیاری اسکول۔ یہاں تک کہ اس علاقے میں پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود چلغوزے کے جنگلات سے ان کا گزر بسر ہوجاتا تھا۔

مسام کی طرح یہاں اور بھی ہزاروں لوگ ہیں جن کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ احمدی درگا کے علاقے سے تعلق رکھنے والے حاجی یارو شیرانی کا تعلق بھی قدرتی حُسن سے مالا مال اس اہم ماحولیاتی نظام کی محافظ برادری سے ہے۔ روایتی پگڑی پہنے 60 سالہ حاجی یارو کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس قیمتی جنگل کو قبائلی جھگڑوں سے بھی بچایا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’قبائل کے درمیان ایک معاہدہ ہوا اور وہ سب اس فیصلے کے پابند تھے کہ اگر کوئی شخص ایک درخت کاٹتا ہے تو اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس جنگل کو کٹنے سے بچانے کے لیے ہم نے قبائلی جھگڑوں کا خطرہ مول لیا لیکن ہماری تمام کوششیں بے کار ہوگئیں‘۔

محمد خروٹی ایک تاجر ہیں جو گزشتہ 10 سال سے چلغوزے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ یہاں سے چلغوزے خرید کر ملک کے دیگر علاقوں میں فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 سالوں کے دوران کورونا وائرس اور شاہراہوں اور بازاروں کی بندش نے ان کے کاروبار کو بُری طرح متاثر کیا تھا لیکن اس سال تاجر برادری کو پچھلے نقصانات کا ازالہ کرنے کی امید تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں بہت کم لوگ اس کام سے وابستہ تھے لیکن اب اس کام سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد وابستہ ہے اور وہ سب ہی غیر یقینی کا شکار ہیں‘۔

چلغوزے کی توڑائی کا سیزن ستمبر، اکتوبر میں شروع ہوتا ہے۔ درختوں پر سے پائن کونز کو توڑنے کے بعد اونٹوں پر لاد کر پہاڑوں سے نیچے لے جایا جاتا ہے۔ اس کو روایتی طریقے سے پراسیس کرنے کے بعد چلغوزے کو ژوب کے بازار بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ ڈیرہ اسمٰعیل خان، بنوں، کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی اور کراچی بھیجا جاتا ہے۔

محمد خروٹی نے بتایا کہ ‘چلغوزے پر یہاں کے لوگوں کا بہت زیادہ معاشی انحصار ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی آبادی اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہے۔ ان کے مطابق ’جنگلات میں لگنے والی آگ سے نہ صرف مقامی افراد بلکہ تاجروں اور اس پورے خطے پر بھی بہت زیادہ منفی اثر پڑا ہے‘۔

اس آگ کے صرف 2 ماہ بعد ہی میڈیا کی توجہ اس تباہ کن آگ سے ہٹ چکی ہے۔ لیکن جن مقامی لوگوں کا معاش ان جگلات سے وابستہ تھا ان کے لیے مشکلات ابھی باقی ہیں۔

اب آگے کیا ہوگا؟

ڈاکٹر طارق شاہ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اینڈ منیجمنٹ سائنسز سے تعلق رکھنے والے ایک معروف محقق ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس آگ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے بین الاقوامی برادری اور وفاقی حکومت کو قلیل اور طویل مدتی جامع منصوبہ بنانا چاہیے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات بھی اٹھانے چاہئیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جب تک متاثرہ افراد دوبارہ ان جنگلات سے روزگار حاصل نہ کرنے لگیں تب تک ان کے لیے روزگار کے متبادل ذرائع کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے اس علاقے اور یہاں چلغوزے کی تجارت کی اہمیت کو تسلیم کرنا ایک اہم قدم ہے لیکن اس حوالے سے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے‘۔

بزمیر خان ایک سماجی کارکن اور ماہرِ ماحولیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چلغوزے کے جنگلات مقامی آبادی کی ملکیت ہیں اور یہاں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ جنگل چلغوزے کی تجارت سے حاصل ہونے والے منافع کی صورت میں روزگار کے اچھے مواقع فراہم کرتا ہے‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ جنگلات ٹیکس فری زون میں شامل ہیں۔

چلغوزے کے یہ جنگلات دیہی اور مقامی معیشت کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلوچستان اور خاص طور پر ژوب اور اس سے ملحقہ شیرانی اضلاع اپنے قدرتی حُسن کے لیے مشہور ہیں۔ بدقسمتی سے تاریخی اور جغرافیائی اہمیت رکھنے والے ان علاقوں کی ترقی کے لیے بہت ہی کم کام ہوا ہے۔

اس آگ کے نتیجے میں ان علاقوں کو کچھ نہ کچھ توجہ ضرور ملی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے آگ کے بجھنے کے بعد بھی یہ توجہ برقرار رہے۔


یہ مضمون 24 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ms Lashari Aug 18, 2022 12:16pm
This is the right time our GOVT should take serious steps for these adversely affected areas. Pakistan GOVT MUST help these area as they had been contributing in generating huge revenue for the country. NGOs should also come forwarder & start any fund raising for these brothers.