عفت نوید صاحبہ لگتی بڑی نرم خو، شفیق اور روئی سے ملائم دل والی ہیں لیکن ان کی کتاب ’دیپ جلتے رہے‘ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ تو بڑی سفاک ہیں اور وہ بھی اپنے لیے۔

یوں ہنستے مسکراتے اپنے زخموں کے ٹانکوں اور دُکھتی رگوں سے چھیڑ چھاڑ، وقت کے سفر میں بہت پیچھے رہ جانے والے درد کے ساتھ ’ادھر آ بے، ابے او‘ کی شوخی، بیتی زندگی کے تلخ ترین لمحوں کو ایک ساتھ بلاکر ان سے ایک بار پھر گزرنا، آنکھوں سے رفتہ رفتہ بہنے والی ساری کی ساری کڑواہٹ ایک گلاس میں بھر کر غٹاغٹ پی جانا یہ سفاکی نہیں تو اور کیا ہے۔

چھیڑا تو قصہ درد ہے مگر اس پر شگفتگی کی ایسی دبیز تہہ چڑھائی ہے کہ پڑھنے والا ایک بار دھوکا کھا کر مسکرا ہی دیتا ہے، آنکھیں تو کچھ دیر بعد نم ہوتی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ میر نے درد و غم جمع کیے اور جب انہیں دیوان کرنے بیٹھے تو ان پر مرد ظریف غالبؔ، غالب آگیا۔ تو طے پایا کہ مصنفہ دھوکے باز بھی ہیں۔

کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ لکھاری سفاک ہیں اور وہ بھی اپنے لیے
کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ لکھاری سفاک ہیں اور وہ بھی اپنے لیے

سفاکی کی طرح اپنی دھوکے بازی کا ہدف بھی یہ خود ہیں، کیسے؟ یہ جاننے کے لیے ان پَلوں میں چلتے ہیں جب ان کا رشتہ جناب مجاہد بریلوی کی کوششوں کے نتیجے میں نوید احمد صاحب سے طے پاچکا تھا۔ ایسے میں نوید صاحب کے بڑے بھائی نے اپنے حُسن یوسف رکھنے والے برادر کے روز و شب کے بارے میں مجاہد صاحب کو پوری سچائی بتا دی۔ مقصد قطعاً بھائی کو تنہائی کے کنوئیں میں دھکیلنا نہیں تھا، بلکہ وہ پوری نیک نیتی سے ایک لڑکی کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے کہ یہ سب سن کر مجاہد صاحب ’یوٹرن‘ لے کر عفت کو ’ایک غلط آدمی‘ سے بچانے کی خاطر ان کے والد کے دروازے پر جاپہنچتے، صورتحال سے بوکھلائی ہوئی لڑکی نے جھٹ ’رشتے‘ سے ملاقات کی اور جھٹ پٹ شادی پر اصرار کیا۔

شاعری کی کُل وقتی ملازمت کرنے والے احمد نوید نے ان سے کہا کہ ’ان کی نوکری ہے نہ بری کا کوئی سامان۔ نہ زیور نہ ولیمہ کرنے کو پیسے، اتنی جلدی شادی ممکن نہیں‘۔ اس پر محترمہ نے کس ’چالاکی‘ سے اپنے ساتھ دھوکے کی ترکیب تیار کی وہ پڑھیے، ’انہیں مشورے دیے، پاپا خیرپور میں ہیں انہیں کیا معلوم آپ کی نوکری نہیں ہے، وہ کون سا تفتیش کریں گے، رہی بات زیور کی تو چاندی کے زیور پر سونے کا پانی پھروا کر دو سیٹ بری رکھ دیں‘۔

’دیپ جلتے رہے‘ میں آپ کو کتنی ہی ایسی ان ہونیاں ملیں گی۔

عفت نوید اور احمد نوید
عفت نوید اور احمد نوید

کہنے والے اس تصنیف کو خودنوشت کا نام دے رہے ہیں، میں ایسا نہیں سمجھتا۔ ہمارے ہاں اکثر خودنوشتیں بچپن کے تذکرے، بلکہ اجداد کے ذکر سے شروع ہوتی ہیں۔ ان میں اپنی خودداری، دولت اور جاہ و منصب سے بے پروائی، سچائی اور بڑے ملفوف انداز میں ہر اچھائی کے قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ بیتی لکھنے والے مرد ہوں تو ان میں سے بعض اپنے بارے میں پورا سچ بولنے کے نام پر کتاب میں ایسے اصلی اور فرضی قصے شامل کردیتے ہیں کہ خودنوشت کچھ نہ چھپانے والے کرداروں کی چھپ کر دیکھی جانے والی فلموں سے بس دو ہاتھ ہی پیچھے رہ جاتی ہے۔ اس سے کتاب کی ’مشہوری‘ بھی ہوتی ہے اور اگر وہ قابل ضبطی ٹھہرے تو خوب بکتی ہے۔

میرے نزدیک عفت نوید کی کتاب ان کی آپ بیتی نہیں بلکہ ایک رشتے کی کہانی ہے، دنیا کا سب سے منفرد رشتہ جس کے فریقین کو مذہب نے ایک دوسرے کا لباس کہا اور سماج نے گاڑی کے دو پہیے (یہ ہمارے سماج کے مقولے بھی عجیب ہیں، گاڑی کے تو چار پہیے ہوتے ہیں، شوہر بیوی کو سائیکل یا موٹرسائیکل کے پہیے کہنا زیادہ مناسب ہے)۔ یہ کہانی شروع ہی مصنفہ کی زندگی میں آنے والے اس دن سے ہوتی ہے جب ایک ایسے ’میر‘ نے عفت کی زندگی میں قدم رکھا جو سرتاپا کہہ رہا تھا ’مجھ کو شاعر ہی کہو، اس کے سوا کچھ نہ کہو‘۔

یہ کہانی عفت نوید کی ہے، لیکن اس کا مرکزی کردار احمد نوید ہیں۔ شاعری میں جینے والے احمد نوید کا کلام ذہانت کی اس بلندی اور تخلیقیت کی اس پرواز کی خبر دیتا ہے جو کم ہی شاعروں کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی ذات میں تخلیق کی اٹھتی اور ان جانے ساحلوں کی خبر لاتی لہروں کے ساتھ جنون کی سرکش موجیں بھی طوفان برپا کرتی رہی ہیں۔ وہ اندروں جہاں سخن کے ان دیکھے آسمانوں سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے اور ترتیب پاتے ہیں وہیں ہر کچھ وقت کے بعد خود فراموشی کے گھنگھور اور پُراسرار اندھیرے بھی ڈیرا ڈال لیتے ہیں۔

ان کے اسی اتار چڑھاؤ اور ذہنی ونفسی حالت نے عفت کو الگ اور منفرد زندگی سے دوچار کیے رکھا ہے۔ سو جب ایک عام اور سادہ سی نظر آنے والی عورت نے اپنا آپ صفحوں پر سطر سطر اتارا تو ایک اچھوتی کہانی وجود میں آئی جو ذرا سے رد و بدل اور فرضی ناموں کے پردوں میں بیان کی جاتی تو ایک شاندار اور کامیاب ناول اردو ادب کا حصہ بن جاتا۔ لیکن ایسا کرنا بہت بڑا ظلم ہوتا، کہ ہم ایک بپتا کو فرضی قصہ سمجھ بیٹھتے اور کیسے کیسے افراد کو سچ کے گرد ڈھیروں تخیل لپیٹ کر خلق کیے جانے والے کردار جانتے اور بقول قابل اجمیری ’سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے‘۔

یہ کہانی ہے تو عفت نوید کی لیکن اس کے مرکزی کردار احمد نوید ہیں
یہ کہانی ہے تو عفت نوید کی لیکن اس کے مرکزی کردار احمد نوید ہیں

سچ لکھنے کا دعویٰ ہم سب کرتے ہیں لیکن یہ آگ کے دریا میں تیرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ اپنی ذات تو کجا اپنوں کے بارے میں بھی ہم بہت کچھ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ آبگینوں کو ٹھیس پہنچنا تعلقات میں دُور تک دراڑ ڈال دیتا ہے۔ لیکن عفت نوید نے نہ اپنا خیال کیا نہ دوسروں کا۔ ایک بے روزگار اور اپنی بدلتی ذہنی حالت کے باعث خطرناک حد تک چلے جانے والے شوہر کے ساتھ زندگی بتانے کی کتھا وہ یوں بھی سنا سکتی تھیں کہ وہ ایک دیوی کے روپ میں سامنے آتیں، لیکن انہوں نے ہر اس لمحے کو بھی لفظ کیا جب خود غرضی اور طلب کی خواہش ان میں پھنکاری۔

جن حالات میں وہ جی رہی تھیں ان میں کوئی بھی انسان خلوص، ایثار اور محبت کو بوجھ سمجھ کر اتار پھینکتا اور یہاں تو خود ان کے جیٹھ بھری محفل میں عفت کی والدہ سے کہہ چکے تھے کہ اگر وہ اس رشتے میں مزید رہیں تو زندہ نہ رہ پائیں گی۔ عفت کے اپنے ہاتھ بھی اتنے نحیف ہوچکے تھے کہ شوہر کی بانہے تھامے رکھنے کی سکت نہیں رہی تھی، مگر احمد نوید کی والدہ کا دل پگھل کر آنکھوں میں بھر آیا اور وہ باغی لڑکی جس نے ماں باپ کے گھر میں بال نہ کٹوانے سے بن بیاہی کے ساڑھی نہ پہننے تک ہر روایت کو ٹھوکر پر رکھا تھا، ایک ماں کی آنکھوں سے چھلکتی ممتا کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔ کتاب میں یہ واقعہ جس دلسوز انداز میں بیان ہوا ہے لگتا ہے میر انیس کے خانوادے کی اس بہو نے ان کے کسی مرثیے کا مصرعہ نثر کردیا ہو۔

یہ ایک عجیب کتاب ہے۔ بہت عجیب۔ کتاب کی ایک انفرادیت تو یہ ہے کہ اس میں ازدواجی زندگی کے وہ واقعات پوری تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جو بیوی کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں، تذلیل سے تشدد تک سب کچھ۔ یہ سب ہمیں تہمینہ درانی کی کتاب ’مینڈھا سائیں‘ میں بھی ملتا ہے، لیکن انہوں نے جو لکھا غلام مصطفیٰ کھر سے اپنا رشتہ ختم ہونے کے بعد لکھا، تاہم عفت کے نام کا لاحقہ آج بھی ’نوید‘ ہے اور ان کے شریکِ حیات کتاب کا ابتدائی مضمون لکھ کر شریکِ کتاب بھی ہوگئے ہیں۔ یوں عفت نوید کی جرأت کے ساتھ احمد نوید کی ہمت اور ظرف بھی ڈھیروں داد کا مستحق ہے۔

اس کتاب کے حوالے سے احمد نوید کا ظرف بھی داد کا مستحق ہے
اس کتاب کے حوالے سے احمد نوید کا ظرف بھی داد کا مستحق ہے

اس کتاب میں صفحہ در صفحہ بچھے چھوٹے چھوٹے واقعات ہمارے معاشرے کے بڑے بڑے حقائق کو تصویر کرکے رکھ دیتے ہیں۔ خود کو دوست کہنے والے ایک سادہ لوح اور اپنی ذات سے بے گانہ ہوجانے والے شاعر کا کس ظالمانہ انداز میں مذاق اُڑاتے ہیں، اس کی کس طرح تحقیر کرتے ہیں، اذیت دیتے ہیں، کچھ منظر دکھاتے ہیں کہ کیسے درندے ہوتے ہیں وہ لمحے جنہیں مجبوری خود اپنی انا کا ماس پیش کرتی ہے۔ یہ جان کر دل کیسا کٹتا ہے کہ مصرعے اٹھانے والے سے یومیہ 100 روپے کے عوض اینٹیں بھی اٹھوائی گئیں۔ یہ احسان ایک ایسے صاحب نے کیا جو جانتے تھے کہ یہ مزدور اس شہر کا ایک قابلِ فخر شاعر احمد نوید ہے۔ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ زندگی نامہرباں ہو تو کیسے کیسے ’مہربانوں‘ سے واسطہ پڑتا ہے، ایسے ہی ایک مہربان دُور کے رشتے دار نے شوہر سے جان چھڑانے کے لیے عفت کو مشورہ دیا کہ ’ٹارگٹ کلنگ تو یوں بھی ہورہی ہے، کراچی کی بڑی سیاسی پارٹی سے رجوع کرنا چاہیے‘۔

کتاب میں نشیب کی طرف بہتے پانی کی سی روانی ہے جو قاری کو ساتھ بہائے لے جاتی ہے۔ مصنفہ زندگی کا بوجھ اٹھائے رہیں، لیکن انہوں نے یہ بوجھ اپنی کہانی کے حوالے نہیں کیا، وہ بڑی سبک روی سے اپنے روز و شب بیان کرتی چلی جاتی ہیں اور کہیں ایک سطر بھی بوجھل نہیں ہوتی۔ کہانی پڑھتے ہوئے یہ حقیقت خود کو دہراتی ہے کہ انسانی رویے حالات کے محتاج ہیں، خاص طور پر جب کالج کے مالک کی طرف سے تنخواہ ہضم کرلینے پر ہم عفت صاحبہ کو ’غضب کی دیوی‘ بنے آجر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھتے ہیں، اس ننھے سے ’انقلاب فرانس‘ میں ان کے بچے بھی ماں کا ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔

مصنفہ زندگی کا بوجھ اٹھائے رہیں، لیکن انہوں نے یہ بوجھ اپنی کہانی کے حوالے نہیں کیا
مصنفہ زندگی کا بوجھ اٹھائے رہیں، لیکن انہوں نے یہ بوجھ اپنی کہانی کے حوالے نہیں کیا

عفت نوید میں کمال کی حس مزاح ہے جس نے افلاس سے خوف و ہراس تک زندگی کے ہر وار کا مقابلہ کرنے میں ان کی مدد تو کی ہی ہے مزید یہ کہ اس صلاحیت کے طفیل ’دیپ جلتے رہے‘ میں بلا کے چٹ پٹے، بے ساختہ ہنساتے اور گدگداتے فقرے و پیرے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے المیے میں مزاح کے ایسے شگوفے کھلائے ہیں کہ اگر مزاح لکھنے پر آگئیں تو بہت سے مزاح نگاروں کے لیے یہ المیہ ہوگا۔

ایک حقیقی تخلیق کار کی زندگی کے تجربات اس کے لفظوں اور اسلوب کو کیسی کاٹ دیتے اور کیسے بانکے تیور دیتے ہیں، اس کا اندازہ اس کے کتاب کے ہر چند صفحات بعد ہوجاتا ہے جب کوئی فقرہ سامنے آکر بے ساختہ واہ کہنے پر مجبور کردیتا ہے۔

کتاب کا عنوان تو ’دیپ جلتے رہے‘ قرار پایا لیکن درحقیقت عفت نوید نے دل جلا کے سرِعام رکھ دیا ہے۔ لیکن سگھڑ خاتون ہیں، اس لیے اس جلے دل کے پکوان میں ظرافت کے مسالے اور دیگر لوازمات یوں ملائے ہیں کہ جلی ہانڈی کو چٹخارے دار بنا دیا ہے۔

میں نہیں جانتا کہ یہ کتاب پڑھ کر آپ کا تاثر کیا ہوگا، میں تو اسے زندگی کی کتاب سمجھتا ہوں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

پرویز بلگرامی Aug 10, 2022 02:22pm
بہت بہترین تبصرہ۔۔ عفت نوید کی سوانح کی ہی طرح سفاک
پرویز بلگرامی Aug 10, 2022 02:23pm
اچھا لکھا۔عثمان جامعی سے ایسے ہی تبصرے کی امید ہوتی ہے