متحدہ عرب امارات کا پاکستانی کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 06 اگست 2022
متحدہ عرب امارات مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا—فوٹو: ڈان
متحدہ عرب امارات مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا—فوٹو: ڈان

متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں مختلف شعبوں کی کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق ابوظہبی کے حکومتی ذرائع سے سرکاری خبرایجنسی وام نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی مختلف شعبوں کی کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام کے سبب پاکستان معاشی بحران سے نکل جائے گا، مفتاح اسمٰعیل

رپورٹ میں کہا گیا کہ متحدہ عرب امارات مختلف شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا، جس میں گیس، توانائی کا انفرااسٹرکچر، قابل تجدید توانائی اور صحت کا شعبہ شامل ہے۔

اس اقدام سے ملک میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے ساتھ ساتھ گراوٹ کا شکار روپیہ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کی جانب سے اپنا پروگرام جاری کرنے کے واضح بیان کے بعد سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور جمعے کو اسٹاک مارکیٹ میں 670 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔

ڈان کو آئی ایم ایف اور سفارتی ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف رواں ہفتے کے آخر تک پاکستان کو قرض پیکیج کی ساتویں اور آٹھویں قسط جاری کر رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا یہ وقفہ 12 اگست کو ختم ہو رہا ہے، اگر تجاویز 20 اگست سے پہلے بھیج دی گئیں ہوں تو تیکنیکی اعتبار سے آئی ایم ایف کا ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس 20 اگست سے پہلے ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے یکم اگست سے 12 اگست کے دوران وقفے سے قبل بورڈ کی منظوری لینے کی کوشش کی تھی اور کئی عہدیداروں کو آئی ایم ایف کو اس کے لیے منوانے کے لیے واشنگٹن بھیجا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے کے آغاز میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ وینڈی شیرمین کو فون کیا تھا تاکہ پیکیج کے لیے امریکا کا تعاون حاصل کیا جائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے قرض کے اجرا کے لیے آخری شرط پوری کرلی ہے، آئی ایم ایف

انہوں نے بتایا کہ ‘لیکن پاکستانیوں کو بتایا دیا گیا تھا کہ وقفے سے قبل بورڈ کا اجلاس رکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ بورڈ کے کئی اراکین چھٹیوں پر ہیں’۔

اس معاملے باخبر مزید ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کا خواہاں اور اسی لیے ان کی طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہو رہی ہے لیکن عمل کو تیز کرنا ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یقینی بنائیں کہ وہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی قسط جاری ہونے کے بعد 4 ارب ڈالر کا متوقع قرض دیں گے۔

ایک سینئر سفارتی عہدیدار نے بتایا کہ ‘پاکستان کو دو دوست ممالک سے یقین دہانی کرائی گئی، اسی لیے ہمیں بورڈ کی منظوری کے لیے کوئی مسئلہ نظر نہیں آرہا ہے’۔

ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خبردار کیا گیا ہے وہ سیاسی حالات کو خراب نہ ہونے دیا جائے، حکومت کو مزید کہا گیا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے احتجاج اور مظہارے یا حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں پر کریکٹ سے معاہدے پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

امریکی میڈیا نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے امریکی سفارت کار عسکری عہدیداروں کو کی گئی کال کے حوالے سے نشان دہی کی کہ ‘پاکستان کی فوج نے ملک کی 75 سالہ تاریخ میں نصف سے زیادہ عرصہ براہ راست حکومت کی ہے اور امریکا کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور القاعدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں قریبی اتحادی رہے ہیں’۔

سفارتی ذرائع نے بتایا کہ ‘فون کال سے مدد ملی ہے لیکن امریکا آئی ایم ایف کو اپنا طریقہ پر عمل درآمد کے حوالے سے روک نہیں سکتا’۔

رپورٹس میں بتایا گیا کہ ‘پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرض اشد ضرورت ہے، جولائی میں آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ اگر ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری دی تو وہ بیل آؤٹ پیکیج 6 ارب ڈالر سے بڑھا کر 7 ارب ڈال کردے گا، جو عام طور پر ایک معمول کی کارروائی تصور کی جاتی ہے’۔

ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی سے پاکستان کو مدد ملے گی اور دنیا کے دیگر اداروں کو پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی ہوگی۔

رپورٹ میں نشان دہی کی گئی تھی کہ جب سے عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا ہے، آئی ایم ایف کے قرض کے حوالے سے غیریقینی کے پیش نظر پاکستان کی کرنسی تاریخ بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرنسی میں مسلسل گراوٹ سے کاروباری برادری میں تشویش پھیل گئی ہے اور اشیا کی قیمتوں میں اضافے نے شہباز شریف کی حکومت کو غیرمقبول کردیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف نے 2019 میں 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پر دستخط کیے تھے، لیکن جب معاہدے کی تعمیل پر آئی ایم ایف نے پاکستان کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تو 1.7 ارب ڈالر (ساتویں اور آٹھویں) قسط کا اجرا اس سال کے شروع میں ہی روک دیا گیا تھا۔

آخری ایگزیکٹو بورڈ مشاورت اس سال 2 فروری کو ہوئی تھی۔ 13 جولائی کو، آئی ایم ایف نے ای ایف ایف کے لیے مشترکہ ساتویں اور آٹھویں جائزوں پر عملے کی سطح پر ایک معاہدہ کیا تھا جسے قسط جاری کرنے سے قبل بورڈ کو منظور کرنا ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں