تحریکِ پاکستان اور خواتین شعرا

وقت کی ریگ رواں پر کتنے ہی نقش ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں۔ قافلوں کی منزلیں بنتی اور معدوم ہوتی رہتی ہیں لیکن ذہن انسان کی دریافتیں، تخیل کے ابدی شاہکار اور وہ روایات جو حقائق پر مبنی ہوں انہیں حوادث زمانہ بھی ختم نہیں کرسکتیں۔ انہی جاندار روایات کے تاروپود سے قوموں کے کردار مشکل ہوتے ہیں۔

پاکستان قراردادِ پاکستان کے بعد طلوعِ آزادی کی جس منزل سے ہمکنار ہوا اس کی داستان نسلِ نو کو سنانی ضروری ہے کیونکہ جن لوگوں نے جہادِ آزادی میں حصہ لیا وہ یقیناً رحمت خداوندی سے سرفراز ہو رہے ہوں گے۔

اب اس ملک میں ایک ایسی نسل عہدِ شباب کی منزلوں سے گزر رہی ہے جس کی آنکھوں نے تاریخ کے سابقہ مناظر نہیں دیکھے۔ یہ نسل آج جس آزادی سے اس سرزمین میں اپنی تمناؤں کی آبیاری کرنے میں مصروف ہے اس آزادی کے حصول کے لیے جن اولوالعزم شخصیات نے قربانیاں پیش کیں ان کی جدوجہد سے انہیں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی مخلصانہ کوششیں صرف تاریخ کے اوراق کا حصہ نہ رہیں بلکہ وہ ہماری زندگی میں ہمیں تابناکی بخشنے کا ذریعہ ثابت ہوں۔

آزادی کے حصول کے لیے جہاں کئی حوالے ملتے ہیں وہیں ایک باب خواتین کی جدوجہد کی داستان سناتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جدوجہدِ آزادی میں شریک خواتین نے سیاسی، سماجی اور ادبی میدان میں تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کے حوالے سے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے حصول میں حصہ لینے والی خواتین کو مستقل عنوان کے تحت ہمیں اپنی تحریروں اور علمی تحقیقات کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں نور الصباح بیگم کی کتاب ’تحریکِ پاکستان اور خواتین‘ بنیادی حوالے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جس میں انہوں نے بی امّاں، بیگم جہاں آرا شاہ نواز، بیگم اقبال حسین ملک اور دیگر خواتین کے حالات قلم بند کیے ہیں۔ علاوہ ازیں نور الصباح بیگم ناول نگار اور مضمون نگار بھی تھیں۔ تحریکِ پاکستان کی سرگرم کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ نومبر 1947ء میں انہوں نے ’بزم عمل خواتین‘ قائم کی۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’صبح غزل‘ ہے جس میں تحریکِ پاکستان کے حوالے سے نظمیں اور غزلیں موجود ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ

بھولے سے کبھی شکوۂ یاراں نہ کریں گے
ہم تذکرۂ عہدِ بہاراں نہ کریں گے

اسی غزل کا مقطع ہے

گلشن میں جو کچھ نورؔ گزرتی ہے سو گزرے
یہ طے ہے کہ اب فکرِ بہاراں نہ کریں گے

نور الصباح بیگم کی کتاب— تصویر: ریختہ
نور الصباح بیگم کی کتاب— تصویر: ریختہ

تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ان کی ایک نظم ’مسلم خاتون سے خطاب‘ ہے۔ پوری نظم میں ایک انقلابی جذبہ کار فرما ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک پیامبر نیند کے متوالوں کو اپنا پیام سننے پر مجبور کررہا ہے اور ذہن میں جذبۂ انقلاب کی جو لے چھڑی ہوئی ہے اس سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ کہتی ہیں

قوم کی تاریکیاں بدبختیاں
اور جنونِ عشق کی سر مستیاں
دورِ محکومی کی بے حد سختیاں
اور اس پر یہ گریباں دستیاں
دکھ درد کی داستاں سن کر بھی تم
کس لیے خاموش ہو مدہوش ہو
وقت آیا ہے تو شمشیر بن
پائے کافر کے لیے زنجیر بن
اپنی ملت کے لیے تصویر بن
قیصریت کے لیے تکبیر بن
اپنے سر سے پردۂ غفلت ہٹا
اپنی آنکھیں کھول اور ظلمت ہٹا

نور الصباح بیگم کا شعری مجموعہ— تصویر: ریختہ
نور الصباح بیگم کا شعری مجموعہ— تصویر: ریختہ

ان کی ایک اور نظم ’پاکستانی خاتون سے خطاب‘ ہے۔ یہ نظم حصولِ پاکستان کے بعد تخلیق کی گئی تھی۔ یہاں اندازِ بیاں تبدیل ہوگیا ہے۔ وہ تیور اور للکار باقی نہیں بلکہ گھر کی تزئین و آرائش کا جذبہ موجود ہے۔ گوکہ یہ نظم اقبال کی زمین ’نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر‘ میں لکھی گئی ہے مگر خواتین کو اس میں عمدہ پیغام دیا گیا ہے۔

نظامِ نو میں شباب بہار پیدا کر
جہانِ سرد میں برق و شرار پیدا کر
جو رشکِ لالہ و گل ہوں وہ خار پیدا کر
تو ہر نفس میں دلِ بے قرار پیدا کر
غرض کہ منتخبِ روزگار پیدا کر

تحریکِ پاکستان سے شعرا کو وابستہ کرنے اور آزادی کی اس تحریک سے جوڑنے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کی ایکشن کمیٹی نے شاعروں اور ادیبوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا پہلا اجلاس 11 اکتوبر 1944ء کو علی گڑھ میں ہوا۔ اجلاس میں جنوبی ایشیا میں اردو اور علاقائی زبانوں سے تعلق رکھنے والے ادبا اور شعرا نے شرکت کی۔ ان کی ایک فہرست تیار کی گئی اور تحریکِ پاکستان میں ان سے تعاون کی درخواست کی گئی، اس کے بعد ایک مراسلہ بھی جاری کیا گیا۔

اس میں مسلم لیگ نے قومی اہمیت کے موضوعات کا تعین بھی خود ہی کردیا تھا۔ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی ترجمان اخبار ’منشور‘، روزنامہ ’انجام‘ دہلی، اخبار ’مسلمان‘ مدراس، ’نوائے وقت‘ لاہور، اخبار ’مسلم لیگ‘ پٹنہ اور ہفت روزہ ’سرحد‘ کی فائلیں آج بھی گواہ ہیں کہ ادیبوں نے اس کمیٹی کے گشتی مراسلے کا بھرپور ساتھ دیا۔

نور الصباح بیگم—تصویر: ریختہ
نور الصباح بیگم—تصویر: ریختہ

تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے والے شاعروں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن چند نام نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن میں اصغر سودائی، عبدالکریم ثمر، منظور احمد منظور، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی، مولانا ظفر علی خان، احسان دانش اور حفیظ جالندھری کافی مشہور ہوئے۔ انہی میں ایک نام عزیز جہاں بیگم بدایونی کا بھی ہے۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان کے لیے نظمیں لکھیں۔ ان کی ایک نظم ’تعمیرِ نو‘ ملاحظہ فرمائیں

محرومی تقدیر کا الزام کہاں تک
شرمندگی کوشش ناکام کہاں تک
دنیا کو ضرورت ہے ترے عزم جواں کی
سرگشتہ رہے گا صفت جام کہاں تک

انہیں سیاسی محکومی اور بے بسی کا شدید احساس تھا اور وہ اسے مرگِ حیات سے تعبیر کرتی تھیں اور ایسی سحر و شام کو آزادی کی صبح میں تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتی تھیں۔ اسی لیے ان کے اشعار میں گھن گرج بھی ہے اور عمل کی چاہت بھی۔

گیسوئے سیہ تاب و رخ صاعقہ پرور
یہ مرگ و حیات و سحر و شام کہاں تک
لیلائے حقیت سے بھی ہوجا کہیں دوچار
خوابوں کی حسیں چھاؤں میں آرام کہاں تک

اسی سلسلے کی کڑی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک مجوعۂ نظم ’نغمات پاکستان‘ کے نام سے امتیاز جہاں بیگم رحمٰن نے مرتب کرکے شائع کیا۔ اس میں پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے تعلق سے معروف اور غیر معروف شاعروں کی لکھی گئی نظمیں شامل ہیں۔ اسے بالخصوص پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے نصب العین کی تشہیر اور تبلیغ کے خیال سے مرتب کیا گیا تھا۔ اس میں مرتبہ زیادہ تر نظمیں مسلم لیگ کے سالانہ جلسوں میں پڑھی گئی تھیں۔ اس شعری مجموعے کی اصل تابانی یہ ہے کہ یہ قومی زندگی کے اہم موضوعات کی مختلف شعاعوں کا ایک بصری خاکہ (Spectrum) پیش کرتا ہے جس میں عقیدت اور عظمت کے رنگ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔

یہ صرف ہماری ملی شاعری کا ایک منتخب مجموعہ بلکہ اسے قومی ادب کے کل مرقعے کی ایک جھلک کہہ سکتے ہیں۔ خواتین شعرا میں ایک نام خورشید آرا بیگم کا بھی ہے جو فارسی اور اردو کی پروفیسر تھیں۔

1944ء میں انہیں دہلی میں مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی میں شامل کیا گیا اور ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں جلد ہی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی میں انہوں نے خورشید گرلز کالج قائم کیا۔ وہ شعر و ادب کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور خود بھی اچھے شعر کہتی تھیں۔ ان کی ایک نظم ’اے مسلم خوابیدہ‘ کا ایک بند ملاحظہ کیجیے

مسلم ذرا بیدار ہو کیوں خواب در آغوش ہو
کیوں سست ہے آہنگ ساز کیوں انجمن خاموش ہے
بیگانہ فردا ہے کیوں کیوں محو حسن و دوش ہے
حالاتِ گردوپیش سے کیوں اب تغافل کیش ہے
خمخانہ عالم کو دیکھ ساغر بکف مے نوش ہے مصروف نوشا نوش ہے

تحریکِ پاکستان سے وابستہ ایک نام صفیہ شمیم ملیح آبادی کا بھی ہے۔ جوش ملیح آبادی ان کے حقیقی ماموں تھے۔ انہوں نے نظم، غزل، رباعی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ مختلف ادبی رسائل جیسے ’ماہ نو‘، ’ساقی‘، ’مخزن‘ اور ’ہمایوں‘ میں ان کا کلام شائع ہوتا رہا۔

تحریکِ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی ایک نظم ’کاروانِ سحر‘ ہے جس میں انہوں نے بہارِ نو کی آمد کی نوید سنائی ہے کہ کیوں اس سحر میں غلامی کی زنجیر ٹوٹ جائے گی، ارادوں کی مشعل روشن ہوگی، عزائم کی دنیا تعمیر کی جائے گی اور قدم سوئے منزل بڑھتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ

روش در روش گنگناتا ہوا
چمن در چمن گیت گاتا ہوا
مرادوں کے غنچے کھلاتا ہوا
بہشتِ تمنا جگاتا ہوا
اٹھو کاروانِ سحر آگیا
علم عصرِ نو کا اٹھائے ہوئے
لگن زندگی کی لگائے ہوئے
دل آدمیت جگائے ہوئے
جہنم کو جنت بنائے ہوئے
اٹھو کاروانِ سحر آگیا

صفیہ شمیم ملیح آبادی—تصویر: ریختہ
صفیہ شمیم ملیح آبادی—تصویر: ریختہ

اس کے علاوہ ان کی ایک دوسری نظم ’تلاشِ سحر‘ بھی ہے جس میں انہوں نے زندگی کی شبِ تاریک میں چراغ روشن کرنے کا عزم کیا ہے۔ قلب و نظر کی صفائی کے ساتھ وہ تحریکِ پاکستان سے وابستہ ہر ایک ذی نفس کو آزادی کا حقیقی شعور بھی بخشنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ

نقابِ شب میں جمال سحر تلاش کریں
چلو تبسم گل ہائے تر تلاش کریں
فضا پہ موت کا چھایا ہوا ہے سناٹا
پھر آؤ ولولۂ بحرو بر تلاش کریں
توہمات کی پر ہول بدلیوں میں شمیم
چلو حقائق نورِ سحر تلاش کریں

سیدہ اختر تحریکِ پاکستان سے وابستہ مشہور خواتین میں ایک اہم نام ہے۔ وہ شاعر، نثر نگار اور بہت اچھی مقررہ تھیں۔ انہیں ’خطیبۂ ہند‘ اور ’زہرہ سخن‘ کے خطابات دیے گئے۔ اقبال، اکبر الہٰ آبادی، جوش، نیاز فتح پوری، ماہر القادری، جگر مراد آبادی ان کے کاموں کے مداح تھے۔ سیدہ اختر خود اقبال سے متاثر تھیں۔ ’اختر و اقبال‘ ان کی ایک مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے علامہ اقبال کے کلام پر چند تضمینیں پیش کی ہیں۔ وہ آل انڈیا زنانہ مسلم لیگ کی صدر تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ

حق سے ہوا تھا کبھی سینۂ عالم گداز
مجھ کو سنا دیجیے پھر وہ نوا ہائے راز
ذوق طلب ہے تو پھر سود و زیاں سے گزر
راہ وفا میں نہ کر فکر نشیب و فراز

سیدہ اختر کی کتاب—تصویر: ریختہ
سیدہ اختر کی کتاب—تصویر: ریختہ

ان کی ایک نظم ’وطن کا سپاہی‘ بھی ہے۔ اس نظم سے ان کی شخصیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت کے بارے میں جوش جیسا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’اختر کے اندر ایک ایسی بے تاب روح کارفرما ہے جو عورتوں میں تو کیا ہزار مردوں میں بھی نہیں پائی جاتی اور ان کے جذبات اس قدر تند و تیز ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ شعر و ادب کے ذریعے وہ قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہیں‘۔ ان کی اس نظم کے اشعار دیکھیے

بہ صد ناز و تمکیں بہ صد کج کلاہی
وہ آیا وہ آیا وطن کا سپاہی
وہ تھرا اُٹھی ظلم و طاقت کی دنیا
وہ گھبرا اُٹھی کبر و نخوت کی دنیا
محبت کا بندہ محبت کا طالب
زسر تا قدم مژدۂ خیر خواہی
وہ آیا وہ آیا وطن کا سپاہی

سیدہ اختر—تصویر: ریختہ
سیدہ اختر—تصویر: ریختہ

تحریک جدوجہدِ آزادی پاکستان کی خواتین شعرا میں ایک نام وحیدہ نسیم کا بھی ہے۔ عثمانیہ کالج حیدرآباد دکن سے نباتیات میں ایم ایس سی کیا اور کراچی کے ایک کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی ایک نظم ’طلوع صبح‘ سے آپ ان کی تحریکِ پاکستان سے وابستگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ

جوشِ جنوں سے چاک گریباں ہوئے تو ہیں
آثار صبح نو نمایاں ہوئے تو ہیں
دم توڑ دیں نہ راہ میں ہم کشتگانِ شوق
تاریک منزلوں میں چراغاں ہوئے تو ہیں

ان کی غزل میں بھی صبحِ وطن اور رنگِ گلستاں میں چٹکتی ہوئی آزادی کی تمنا کی لہریں موجود ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ

ابھی کیا ہے ابھی رنگ گلستاں اور بدلے گا
صبا کہتی ہے مفہوم بہاراں اور بدلے گا

وحیدہ نسیم—تصویر: ریختہ
وحیدہ نسیم—تصویر: ریختہ

بہاروں کے مفہوم کو نئی تابندگی بخشنے کے لیے عاصمہ حسین کی شاعری بھی تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کو حیات بخش پیغام پہنچاتی ہے۔ ان کی ایک نظم ’صبح دوام‘ کچھ یہی پیغام دے رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ

جو دھوپ کبھی آئی۔ آخر کو بنی سایہ۔ پرچھائیں شاموں کی
اس صبح کا روپ نیا روپوں کا روپ بنے فانوس اجالوں کا
آئی ہے تو آئے سحر۔ روپ اس کا نہ گہنائے۔ ہر نوک پلک منتر
شانوں پہ اُگے جائیں۔ کرنوں کے سنہرے پر۔ سو بجلیاں برسائیں
سونتے کرنیں کرنیں۔ چھتنار کا پھیلاؤ۔ سورج کی بانہوں میں
چمکے تو چمکتی جائے۔ کوندے سی لپک جیسے۔ بھڑکے تو بھڑکتی جائے
یہ نور ہی نور بنے۔ اس جیوتی کی مورت کا۔ تن موتی چور بنے
یوں حسن تمام بنے
ہر ایک نظر کے لیے
یہ صبح دوام بنے

اس صبح دوام کو مسکراتی ہوئی صبح میں تبدیل طاہرہ کاظمی کی نظم ’صبح مسکرائے گی‘ نے کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ روشنی کی خواہش میں خون جلتا ہے۔ اگر دیا بجھ جائے تو تیرگی مسلط ہوجاتی ہے۔ اندھیرے کو کم کرنے کے لیے ہمیں ظلمتوں سے لڑنا پڑے گا۔

دور شبنمی راہیں
راہِ رو کو تکتی ہیں
شب کی ڈوبتی نظریں
نور کو ترستی ہیں
منزلیں بھی آخر کو
سوگئیں اندھیرے میں
اور یہ خواہش معصوم
کون آئے گا اس بار
ظلمتِ شبستاں میں
گُھٹ کے رہ گئی آخر


لکھاری جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ایک تحقیقی مجلے ششماہی تحصیل کے نائب مدیر بھی ہیں۔ پاکستان کے معروف مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔