امریکا: متنازع مصنف سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے نوجوان کا صحت جرم سے انکار

اپ ڈیٹ 14 اگست 2022
شدید زخمی متنازع مصنف کی طبیعت میں کچھ بہتری کے آثار دیکھے گئے —فائل فوٹو: اے ایف پی
شدید زخمی متنازع مصنف کی طبیعت میں کچھ بہتری کے آثار دیکھے گئے —فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی ریاست نیویارک میں ایک ادبی تقریب کے دوران متنازع مصنف سلمان رشدی پر چاقو سے حملہ کرنے والے شخص نے قتل کی کوشش کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بریت کی اپیل کردی جبکہ ہسپتال میں زیر علاج شدید زخمی متنازع مصنف کی طبیعت میں کچھ بہتری کے آثار دیکھے گئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی خبر کے مطابق 24 سالہ ہادی مطر کو ریاست نیویارک کی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کس طرح سلمان رشدی پر تقریباً 10 مرتبہ چاقو سے حملے کیے گئے اور حملے کو منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور سوچی سمجھی کوشش قرار دیا۔

دو روز قبل متنازع اور توہین آمیز تحاریر کی وجہ سے قتل کی دھمکیوں کا سامنا کرنے والے بھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رُشدی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے تھے جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ہنگامی بنیادوں پر ان کی سرجری کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: متنازع برطانوی مصنف سلمان رُشدی پر قاتلانہ حملہ، وینٹی لیٹر پر منتقل

سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے کہا تھا کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان کی آنکھ ضائع ہونے کا خدشہ ہے لیکن اب انہوں نے اپنے تازہ بیان میں اخبار 'نیویارک ٹائمز' کو بتایا کہ سلمان رشدی نے دوبارہ بات کرنا شروع کر دی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حالت بہتر ہوگئی ہے۔

75 سالہ سلمان رشدی کو اپنی کتاب 'مڈنائٹ چلڈرن' اور 1988 میں شائع ہونے والی کتاب ’شیطانی آیات‘ کی وجہ سے متنازع لکھاری کہا جاتا ہے اور اسی کی وجہ سے انہیں کئی مرتبہ قتل کی دھمکیاں بھی دی جاچکی ہیں، جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی کی جانب سے قتل کے فتوے کے بعد وہ برسوں روپوش رہے تھے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے سلمان رشدی پر حملے کو شیطانی قرار دیا اور ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔

جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سلمان رشدی، انسانیت کے بارے میں اپنی بصیرت، بہادری، سچائی، ہمت اور آفاقی نظریات کے ساتھ وابستگی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ہادی مطر پر باضابطہ طور پر اقدام قتل اور ہتھیار سے حملہ کرنے کا سنگین الزام عائد کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سلمان رشدی اور مارگریٹ ایٹ وڈ بکر پرائز کے لیے نامزد

پولیس نے حملہ آور کے پس منظر یا حملے کے پیچھے محرکات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

75 سالہ ناول نگار 1989 سے اس وقت سے موت کی دھمکیوں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے جب ایران کے اس وقت کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی نے مسلمانوں کو ان کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری دیا تھا۔

اس وقت کے ایران کے آیت اللہ روح اللہ خمینی نے مصنف کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا کہ مسلمان ناول نگار کے ساتھ ساتھ ان کی کتاب شائع کرنے والوں کو بھی قتل کردیں۔

اس کے بعد سلمان رشدی تقریباً ایک دہائی تک روپوش رہے تھے۔

ان کی مذکورہ کتاب کو توہین مذہب پر مبنی قرار دے کر مسلم ممالک میں پابندی لگا دی گئی تھی بلکہ کئی ممالک کے علما نے ان پر فتوے بھی صادر کر دیے تھے۔

جرمنی کے اسٹرن میگزین کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں سلمان رشدی نے بتایا تھا کہ کس طرح گزشتہ کئی سال موت کی دھمکیوں کے ساتھ گزارنے کے بعد ان کی زندگی معمول کی جانب واپس آرہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سلمان رشدی القاعدہ کی ہٹ لسٹ پر

ان کا کہنا تھا کہ دھمکیاں ملنے کے بعد 8 یا 9 سال کا عرصہ میرے لیے کافی مشکل تھا لیکن 2000 میں امریکا منتقل ہونے کے بعد سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

سلمان رشدی 2000 کی دہائی کے اوائل میں نیویارک منتقل ہوگئے تھے، اپنی زندگی کو لاحق مسلسل خطرات کے باوجود وہ اب قابل ذکر سیکیورٹی کے بغیر اکثر عوامی مقامات پر دیکھے جارہے تھے۔

ان پر حملے کے وقت موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ سلمان رشدی اسٹیج پر موجود تھے اور ہادی مطر نے ان پر حملہ کیا۔

ایک لبنانی اہلکار کے مطابق حملہ آور ہادی مطر کے خاندان کا تعلق جنوبی لبنان کے گاؤں یارون سے ہے جبکہ وہ امریکا میں پیدا ہوا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں