سابق افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو امریکا مخالف ممالک کی جانب سے بھرتی کیے جانے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 15 اگست 2022
ایک سال قبل امریکی انخلا کے موقع پر افغانستان سے سوا لاکھ افراد کا انخلا یقینی بنایا گیا تھا — فوٹو: رائٹرز
ایک سال قبل امریکی انخلا کے موقع پر افغانستان سے سوا لاکھ افراد کا انخلا یقینی بنایا گیا تھا — فوٹو: رائٹرز

ریپبلکن قانون سازوں نے کہا ہے کہ امریکی انخلا کے آپریشن کے نتیجے میں امریکی کارروائیوں کے بارے میں حساس معلومات رکھنے والے سابق افغان سکیورٹی اہلکاروں کو روس، چین اور ایران کی طرف سے بھرتی یا ان سے زبردستی کیے جانے کا خطرہ ہے اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ان کے انخلا کو ترجیح دینے میں ناکام رہی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اقلیتی ریپبلکنز نے کابل پر طالبان کے قبضے کی پہلی برسی کے موقع پر ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ بات خاص طور پر ان اطلاعات کے پیش نظر درست معلوم ہوتی ہے کہ کچھ سابق افغان فوجی ایران فرار ہو گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: کابل میں طالبان نے احتجاجی خواتین کو تشدد کرکے منتشر کردیا

رپورٹ میں کہا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ 14 سے 30 اگست 2021 کو امریکی فوجیوں کے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے انخلا کے آپریشن میں امریکی تربیت یافتہ افغان کمانڈوز اور دیگر ایلیٹ یونٹس کو نکالنے کو ترجیح دینے میں ناکام رہی۔

آپریشن کے دوران 13 امریکی فوجی مارے گئے اور سیکڑوں امریکی شہری اور دسیوں ہزار خطرے سے دوچار افغان باشندے پیچھے رہ گئے۔

انتظامیہ اس آپریشن کو ایک ’غیر معمولی کامیابی‘ قرار دیتی ہے جس نے تقریباً سوا لاکھ امریکیوں اور افغان باشندوں کا باحفاظت انخلا یقینی بنایا جس کے ساتھ ہی ایک ’نہ ختم ہونے والی‘ جنگ کا خاتمہ ہوا جس میں تقریباً 3500 امریکی اور اتحادی فوجی اور لاکھوں افغان شہری مارے گئے۔

تاہم سوا لاکھ افراد کے انخلا کے باوجود اب بھی سیکڑوں امریکی تربیت یافتہ کمانڈوز اور دیگر سابق سیکیورٹی اہلکار اور ان کے اہل خانہ افغانستان میں موجود ہیں جن کے بارے میں یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ طالبان سابق افغان اہلکاروں کو قتل اور تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، البتہ عسکریت پسند تنظیم ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

ریپبلکن رپورٹ میں کہا گیا کہ ان سابق اہلکاروں کو ’امریکی دشمنوں میں سے کسی ایک کے لیے کام کرنے کے لیے بھرتی یا ان سے زبردستی کی جاسکتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: امریکی ڈرون حملے میں ایمن الظواہری کی ہلاکت پر طالبان خاموش، ردعمل پر غور

انہوں نے اس امکان کو قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا کیونکہ وہ افغان امریکی فوج اور انٹیلی جنس کمیونٹی کی حکمت عملیوں، تکنیکوں اور طریقہ کار کو جانتے ہیں، کچھ امریکی حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن نے جنگ کے اسباق کا صحیح طریقے سے اندازہ کیے بغیر اور انخلا کے دوران ہونے والی افراتفری کی جوابدہی کے بغیر افغانستان سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔

ریپبلکن رپورٹ نے انخلا کے آپریشن کی نئی تفصیلات کو کانگریس کی گواہی اور فوجی اور نیوز رپورٹس ساتھ منسلک کیا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ کس طرح انتظامیہ نے امریکی کمانڈروں کے مشورے کو نظر انداز کیا، کس طرح وہ مناسب منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے اور طالبان کی 2020 کے انخلا کے معاہدے کی خلاف ورزیوں سے صرف نظر کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں