ایران نے متنازع مصنف سلمان رشدی پر حملے میں کسی قسم کے تعلق کی تردید کردی

اپ ڈیٹ 15 اگست 2022
ایران نے کہا کہ اسلام کی توہین کرکے سلمان رشدی نے اپنے آپ کو عوام کی سامنےبے نقاب کیا ہے—فوٹو: ایران ایم ایف اے ویب سائٹ
ایران نے کہا کہ اسلام کی توہین کرکے سلمان رشدی نے اپنے آپ کو عوام کی سامنےبے نقاب کیا ہے—فوٹو: ایران ایم ایف اے ویب سائٹ

ایران نے متنازع برطانوی مصنف سلمان رشدی پر چاقو کے وار کرنے والے حملہ آور کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی 'واضح طور پر' تردید کرتے ہوئے حملے کا ذمہ دار خود متنازع مصنف اور ان کے حامیوں کو ٹھہرایا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ 'ہم واضح طور پر اس حملے سے کسی بھی تعلق کی تردید کرتے ہیں' اور 'کسی کو بھی اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام لگانے کا حق نہیں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا: متنازع مصنف سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے نوجوان کا صحت جرم سے انکار

خیال رہے کہ متنازع برطانوی مصنف سلمان رشدی پر امریکی ریاست نیویارک میں گزشتہ ہفتے ایک تقریب کے دوران چاقو سے حملہ کیا گیا تھا، جس کی بعد انہیں زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا تھا اور اب ان کی خطرے سے باہر ہے۔

پولیس نے سلمان رشدی پر حملے کے بعد نیو جرسی کے علاقے فیئر ویو سے تعلق رکھنے والے ہادی مطر نامی ایک 24 سالہ مشتبہ شخص کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں ملزم نے قتل کی کوشش کے الزامات مسترد کرتے ہوئے بریت کی استدعا کی تھی۔

ایران کی جانب سے اس واقعے کے بعد پہلی بار ردعمل سامنے آیا اور ترجمان نے تہران میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے کے ذمہ دار سلمان رشدی اور ان کے حامی ہیں اور ان کی ہی مذمت کی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اسلام کی توہین کرکے'، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنا اور اسلام کے مقدس معاملات کی تذلیل کرکے سلمان رشدی نے خود لوگوں کے غصے کو دعوت دی تھی'۔

ناصر کنعانی نے مزید کہا کہ سلمان رشدی کی تحریر میں مذہب کی توہین اظہار رائےکی آزادی کا جواز نہیں بنتی۔

مزید پڑھیں : سلمان رشدی القاعدہ کی ہٹ لسٹ پر

یاد رہے کہ بھارتی نژاد متنازع مصنف سلمان رشدی نے 1988میں اپنی کتاب میں اسلام پر تنقید کی تھی، جس کے کئی پیراگراف مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث تھے اور اسی وجہ سے ان کے سر کا بھاری انعام مقرر کیا گیا تھا۔

75 سالہ ناول نگار کو قتل کرنے کا فتویٰ 1989 میں دیا گیا تھا جب ایران کے اس وقت کے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ مسلمان اس کتاب کے لکھنے والے اور اشاعت میں مدد کرنے والوں کو قتل کردیں۔

بعد ازاں 1998 میں ایرانی حکومت نے کہا تھا کہ وہ اس فتوے کی مزید حمایت نہیں کرے گی اور رشدی حالیہ برسوں میں نسبتاً کھلے عام زندگی گزار رہے تھے۔

لیکن 2019 میں، ٹوئٹر نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا اکاؤنٹ معطل کر دیا تھا کیونکہ ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ 'ٹھوس اور اٹل' ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں