اگرچہ ملک میں موجود طاقتور حلقوں میں آج بھی موجودہ اسمبلی کی مدت پوری کرنے کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی ابہام موجود ہے، مگر اس کے باجود غیر یقینی کے شکار وزرا اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے سے متعلق نہ صرف پُرامید ہیں بلکہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

اب تو صورتحال یہاں تک آپہنچی ہے کہ حکومتی ذمہ دار ایک دن میں متعدد پریس کانفرنس کرکے ٹی وی اسکرین کو انگیج کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ سب اس لیے کیا جارہا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کو ٹی وی اسکرینوں پر کم سے کم جگہ مل سکے، لیکن کیا یہی حل ہے؟

حکومت کے ایک عہدیدار اسے میڈیا اسٹریٹجی بتا رہے تھے، لیکن پاکستان میں کیا واقعی ہر کسی کو ٹی وی اسکرین کی عیاشی میسر ہے؟ ایک اور عہدیدار یہ کہنے لگے کہ ’شاید حکومت یہ سب کچھ خود کو تسلی دینے کے لیے کررہی ہے، ورنہ عمران تو ان کے گلے کی ہڈی بن چکے، یعنی نہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اگل سکتے ہیں‘۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے 3 دن تک پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کی شایانِ شان تقریبات کا تذکرہ ضروری ہے۔ اس کا اہتمام قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی خواہش پر کیا۔ ملک کی پارلیمان کی عمارت میں 3 دن میلے کا سماں تھا اور رات کو چاروں طرف سبز رنگ کے قمقمے سریلی ملی نغموں کی وجہ سے زیادہ ہی پُرکشش بن گئے تھے۔

13 اگست کے آخری اور 14 اگست کے ابتدائی لمحات میں سیکڑوں افراد بشمول خواتین اور بچوں پارلیمنٹ کے سبزہ زار کے سامنے کھڑے تھے، اور جیسے ہی گھڑی کی سوئی نے 12 بجے کا وقت بتایا تو شاندار آتش بازی وطن عزیز کی ڈائمنڈ جوبلی کا استقبال کررہی تھی۔ کیا کمال کا منظر تھا۔ وہاں جتنے لوگ تھے اتنے ہی موبائل کیمرے، اور سب ان مناظر کو اپنے فون میں قید کر رہے تھے۔

ملک کے سابق اور موجودہ ارکانِ پارلیمان اور وزرا بھی اسپیکر قومی اسمبلی کی دعوت پر وہاں موجود تھے۔ ایک خوشی تھی جسے ہر چہرے پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔

پارلیمنٹ کی پُرشکوہ عمارت پر کھڑے ہوکر دھماکوں سے آسمان کو رنگین بنانے والے مناظر کو دیکھتے وقت میں ان لوگوں کو بھی یاد کرتا رہا، جن کی زندگی میں ان 75 برسوں میں کوئی رنگ نہیں، سوائے روٹی کے رنگ کے۔ وہ پریمو کولہی جو بدین کے دُور دراز گاؤں میں ایک ایسی زندگی گزارتا ہے، جس کا کبھی ان لوگوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ اسے تو روٹی کے حصول کے لیے بھی ہر لمحے ذلت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آتش بازی کے جوش و جذبے کی خوشی پر ملامت کا رنگ ضرور حاوی تھا، میں نے سوچا کہ میرے وطن اور اس کے لوگوں کی یہ ہی کہانی ہے۔

ان 3 دنوں کے دوران نان مسلم (جنہیں ہم اقلیت کہتے ہیں اور ملک کے آئین میں تمام شہریوں کے دیے گئے برابر کے حقوق کی نفی بھی کرتے ہیں) نوجوانوں، خواتین اور بچوں کو قومی اسمبلی کے ایوان میں بٹھایا گیا۔ ان سے تقاریر کروائی گئیں اور باقیوں نے تالیاں بجائیں۔

13 اگست کی رات 10 بج کر 35 منٹ پر جب قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس شروع ہوا تو اس وقت مہمانوں کی گیلریاں مکمل طور پر بھری ہوئیں تھیں، لیکن ایوان کے اندر 85 سے زیادہ ارکان موجود نہیں تھے۔ یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ہورہا تھا۔ رات 12 بجے سے پہلے اس اجلاس کو ملتوی کیا گیا اور سوا 12 بجے اجلاس پھر شروع کیا گیا اور شروع کرتے ہی ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد پھر کنوینشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں سابقہ ارکان نے بھی شرکت کی۔

اس منظرنامے کو ذہن میں رکھیں۔ اب آتے ہیں ہمارے سیاسی رہنماؤں کے رویے کی طرف جو انہوں نے جمہوریت کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ ملک کی تاریخ کا تذکرہ تو دُور کی بات، لیکن حالیہ 14 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو سوائے 2008ء سے 2013ء تک پاکستان پیپلزپارٹی کے ان 5 سالوں میں اس کے 2 وزرائے اعظم قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اپنے درشن کراتے رہے، باقی وزرائے اعظم کا رویہ اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت ان کے ادھار کی لونڈی ہے، جب ضرورت پڑی کام لیا جب جی چاہا واپس کردیا۔ اندازہ کریں کہ جس وقت 13 اگست کو رات دیر سے قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس شروع ہوا تو اس سے تھوڑی دیر پہلے وزیرِاعظم شہباز شریف بذریعہ ٹی وی قوم سے خطاب کرچکے تھے جس میں وہ میثاق معیشت کی بات کر رہے تھے، اگر یہی بات وہ قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر کہتے تو اس کی اہمیت کچھ اور ہی ہوتی، مگر بدقسمتی سے انہوں نے اس اسمبلی کو اتنی بھی اہمیت نہ دی کہ وہ ڈائمنڈ جوبلی کے اس خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے آتے۔

انہوں نے اسمبلی سے زیادہ ٹی وی پر تقریر کرنے کو ترجیح دی اور تو اور، اپوزیشن لیڈر نے بھی تقریر کرنے کی زحمت نہیں، ممکن ہے کہ بجٹ تقریر کی طرح اس بار کسی حکومتی عہدیدار نے انہیں تقریر لکھ کر نہ دی ہو۔

مجھے یاد ہے جب 2013ء میں میاں نواز شریف وزیرِاعظم کا حلف اٹھاکر ایوان میں آئے تھے تو پہلی بار کچھ ارکان حسبِ روایت وزیرِاعظم کی نشست پر فائل لیکر پہنچے، لیکن میاں صاحب نے معمولی غصے کے ساتھ انکار کے انداز میں ہاتھ کھڑا کیا۔ بس وہ دن تھا، اس کے بعد جب تک وہ وزیرِاعظم رہے کوئی رکن ان کے پاس فائل لیکر نہیں آیا۔

پھر جب عمران خان وزیرِاعظم بنے تو ان کا رویہ سابق وزیرِاعظم سے بھی گیا گزرا تھا۔ پہلے سال کے بعد اگلے 3 سالوں کے دوران جتنے بھی بجٹ پاس کرائے گئے، انہیں ہر بار اپنے ارکان اور اتحادیوں کو وزیرِاعظم ہاؤس بلاکر منانا پڑا، اور ارکان کو ایوان میں بٹھانے کے لیے بھی ایک غیر سویلین افسر کی خدمات لی گئیں تھیں۔ عمران خان نے ایوان میں نہ آنے کی دوڑ میں نواز شریف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

یہاں بس سبق یہ ہے کہ ارکان اور ایوان کی اہمیت اس وقت ہے جب اس کی ضرورت پڑجائے، اور جب ضرورت نہ رہے تو پھر اس طرف منہ کرکے بھی یہ لوگ نہیں سوتے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی مجھے پریس گیلری میں کہہ رہے تھے کہ ’جب قومی اسمبلی کے ایوان میں 3 روزہ کنوینشن ہورہے تھے اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگ تقاریر کر رہے تھے، تو شورش زدہ متاثرین تو موجود ہی نہیں تھے۔ یہ کتنا اچھا ہوتا کہ ان کنوینشز میں ماما قدیر، منظور پشتین، آمنہ مسعود جنجوعہ اور دیگر متاثرین کو بلایا جاتا، ان کی بات سنی جاتی اور ان کا جواب دیا جاتا‘۔

اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان کی پارلیمان اور اس کی عوام کے درمیان خلیج روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ عوام کے مسائل کا تذکرہ صرف پریس گیلری میں موجود صحافیوں کو خبر دینے اور اس تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی نیت سے ہوتا ہے، تاکہ کسی ٹی وی چینل پر ٹکر اور کسی اخبار میں خبر چھپ جائے اور اپنے ووٹرز کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح ان کے درد میں مرے جارہے ہیں۔

وقفہ سوالات میں وزارتیں جواب نہیں دیتیں اور جو تقاریر کی جاتی ہیں ان کا عوام کی زندگی پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔

ملک کی ڈائمنڈ جوبلی جب منائی جارہی ہے تب ایک بات تو واضح ہے کہ اشرافیہ کے مختلف طبقات کے ایک دوسرے کی داڑھیوں میں ہاتھ ہیں۔ پہلے اشرافیہ ایک پیج پر ہوا کرتی تھی، لیکن عمران خان کا ایک پیج پھٹنے کے بعد کوئی بھی ایک پیج پر نہیں ہے۔ ہر کسی کو اپنی مرضی کا جج، جرنیل اور وزیرِاعظم چاہیے۔

پیپلزپارٹی کے ایک سرکردہ رہنما اپنی جماعت سمیت حکومت کی بڑی اتحادی جماعتوں سے شدید نالاں تھے۔ کہنے لگے کہ ’یہ لیڈرز ابھی بھی 90ء کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں، پاکستان کی سیاسی ڈائنامکس تبدیل ہوچکی ہیں، اگر وہ 20ویں صدی کے آخری ایّام کے بجائے 21ویں صدی میں بیٹھ کر سوچتے تو شاید عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ لاتے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’حیرانی کی بات ہے کہ سب ایک ہی محبوبہ کے زلفوں کے اسیر بنے ہوئے ہیں‘۔

سچی بات تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کی اکثریتی جماعت کی غیر موجودگی شاید حکومت کے لیے تو سکون کا سبب بن رہی ہوگی مگر اسمبلی جیسی ہونی چاہیے ویسی ہے نہیں۔ عمران خان نے بھی اس منتخب فورم کو نہ کبھی عزت دی اور نہ ہی اس کی عزت بڑھانے کا کبھی سوچا۔ جن کو آج وہ نیوٹرل کہتے ہیں، کل تک وہ ان کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہوئے سب سے بڑا جمہوریت پسند کہتے تھے۔ آج عمران والا کام ان کی مخالف 13 جماعتی حکومت کررہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار حکومتی ارکان کو ایوان میں لانے کی ذمہ داری کسی غیر سولین افسر پر نہیں ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ایک گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام ہوتا، تمام فریق سامنے بیٹھتے، پونے صدی کے گناہوں کا اعتراف ہوتا، اور پھر نئے راستوں کا تعین کرکے آنے والے 25 سالوں کے لیے ایک منصوبہ بنایا جاتا، ان 25 سالوں میں ماضی کے گناہوں کا ازالہ کرنے کا عزم ہوتا۔ ہم یہ بھی طے کرتے کہ ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں، یہ فریق عوام کو بتاتے کہ جب ہم ملک کی آزادی کا 100 سالہ جشن منارہے ہوں گے تو اس وقت اقوامِ عالم میں ایک قابلِ احترام ملک بن چکے ہوں گے۔ لیکن کمزور حکومت کے لیڈر شپ کا فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور طاقتوروں کو اس کی ضرورت نہیں، نہ ہی ایسا کوئی دوسرا لیڈر زندہ ہے جو سب کو ایک میز پر بٹھا کر ایک نئے خواب کی طرف لے جائے۔

لوگوں کو 75 سالوں میں یہی بتایا گیا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہورہا ہے وہ ان کی قسمت ہے، سیاست اور ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں، لوگوں کو انتظار ہے کہ آسمان سے مدد آئے گی، اور ان کے مصائب کم ہوں گے۔ انہیں فرشتوں کا انتظار ہے، جبکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ زمینی فرشتے جب تک اس نظام سے الگ نہیں ہوں گے، یہ نظام درست نہیں ہوسکتا۔

جمہوریت اس ملک میں ایک ایسی کنیز بن چکی ہے، جس کا مالک تو ایک ہی ہے، وہ اپنے جس تابعدار پر راضی ہوجائے اس کے حوالے کردیتا ہے، اور جب ناراض ہوجائے تو واپس بلالیتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Aug 17, 2022 07:30pm
True hurts, but this is the real situation.