پاکستان مسلم لیگ اگر قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد انتشار اور اندرونی سازشوں کا شکار نہ ہوتی تو پاکستان میں خوشحالی، استحکام اور پائیدار جمہوریت اتنی اچھی طرح قائم ہوچکی ہوتی کہ ملک کبھی مارشل لا اور بیوروکریسی کی گرفت میں نہ آتا۔

نااہل اور اپنی ذات کے مرکز کے گرد گھومنے والے سیاستدانوں نے پرفارم نہ کرکے سیاست بیوروکریسی کے حوالے کردی اور ان کے اشاروں پر نہ صرف ان کا دفاع کرتے رہے بلکہ آج بھی کچھ اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں مسلم لیگ کو شرمناک شکست ہوئی تھی۔ جگتو فرنٹ یہ انتخاب زبردست طریقے سے جیت گیا تھا مگر شومئی قسمت کہ یہ حکومت نہیں چلنے دی گئی اور ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ نہ اچھا ہونا تھا اور نہ ہوا۔

اگرچہ ہم نے شہید سہروردی کو بالآخر وزیرِاعظم بھی بنایا مگر جو خلیج پیدا ہوچکی تھی وہ کم نہ ہوسکی بلکہ اس قدر بڑھ گئی کہ مشرقی پاکستان میں بھارت کو کھیل کھیلنے کا موقع ملا اور بالآخر بنگلہ دیش بن گیا۔

محترم لیاقت علی خان پنجاب کی سیاست میں اس قدر دلچسپی رکھتے تھے کہ پنجاب مسلم لیگ کسی کام کی نہ رہی۔ دولتانہ اور ممدوٹ کے معاملات کتابوں میں بکثرت تحریر ہوچکے ہیں مگر کوئی سبق سیکھنے اور پڑھنے کو تیار ہی نہیں۔

لیاقت علی خان پنجاب کی سیاست میں اتنی دلچسپی رکھتے تھے کہ وہاں مسلم لیگ کسی کام کی نہ رہی
لیاقت علی خان پنجاب کی سیاست میں اتنی دلچسپی رکھتے تھے کہ وہاں مسلم لیگ کسی کام کی نہ رہی

ایوب خان کے دور میں بلوچستان میں کوئی ترقی نہیں ہوسکی اور یوں مرکز مخالف خیالات خوب پروان چڑھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی بلوچستان میں فوج کشی ہوئی اور لوگ پہاڑوں پر چڑھ کر گولی چلاتے تھے۔

پنجابیوں کا قتلِ عام ہوا، پنجابی اساتذہ کو لسانی بنیادوں پر تعلیمی ادارے اور صوبہ چھوڑنے کا حکم ملا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم تباہ و برباد ہوگئی۔ پسماندہ نہ صرف پسماندہ ترین ہوا بلکہ تعلیم کا بھی فقدان رہا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صوبہ سرحد (موجود خیبر پختونخوا) کے وزیرِ اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے اس لیے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وفاق کی جانب سے بلوچستان حکومت ختم کی گئی تھی۔ بھٹو اور عطااللہ مینگل کے درمیان کشیدگی نے وہاں کی حکومت ختم کروائی تھی گویا مشرقی پاکستان، پنجاب، صوبہ سرحد اور بلوچستان میں سیاسی کشیدگی کی بنا پر حکومتیں ٹوٹتی رہیں، لیکن سوال یہ کہ سندھ کیونکر پیچھے رہ جاتا؟ لہٰذا نواز شریف نے گورنر راج لگاکر غوث علی شاہ کو وہاں بھیج دیا اور نواز شریف نے ہی منظور وٹو کی حکومت کے ہوتے ہوئے میاں محمد اظہر کو پنجاب کا ایڈمنسٹریٹر بنایا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں نواز شریف مرکز مخالف رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ آئی جی، چیف سیکرٹری وغیرہ کو وفاق واپس بلایا مگر پنجاب حکومت ان کو روک رہی تھی۔

بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں نواز شریف مرکز مخالف رویہ اختیار کیے ہوئے تھے
بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں نواز شریف مرکز مخالف رویہ اختیار کیے ہوئے تھے

پرویز مشرف کے دور میں بھی بلوچستان کے معاملات غیر مناسب طریقے کے ساتھ درست کرنے کی کوشش الٹی ہوتی تھی۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان وقت بے وقت معاملات خراب رہے۔ NFC ایوارڈ، کالا باغ ڈیم، صوبائی خودمختاری، قانون سازی کی فہرست، پانی کی تقسیم اور ایسے ہی اہم معاملات پر اختلافات رہے اور اب بھی موجود ہیں مگر موجودہ دور میں ایک حوالاتی جو ملک دشمن بیانیہ اور فوج میں بغاوت کا مرتکب پایا جارہا ہے اس کی خاطر صوبہ اور وفاق کی پولیس و دیگر انتظامیہ آمنے سامنے کھڑی کردی گئی اور جس طرح وفاقی وزرا کے خلاف مقدمات کا پنجاب میں اندراج اور چھاپے مارے جارہے ہیں تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔

باخبر لوگ بتاتے ہیں کہ ملزم مذکورہ کو جس بیان کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے وہ ایک ایسے سینیٹر نے تیار کیا اور کروایا تھا جو ایف ایم ریڈیو کے ملازم رہے اور اپنی آواز کی وجہ سے گویا چرب زبانی کی بنا پر ایوانِ بالا کے رکن ہیں۔ اس پورے معاملے میں وہ خود تو چُھپ گئے مگر ملزم کے بیان سے نہ صرف لاتعلق ہوئے بلکہ کسی حد تک مذمت بھی کی۔

یہی حال فواد چوہدری کا ہے کہ انہوں نے بھی عین وقت پر بہانہ بناکر خود کو اس بیان سے دُور کیا اور کسی حد تک لاتعلقی کا اظہار بھی کیا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ کپتان مخالفت بھی کررہا ہے اور پنجاب کی انتظامیہ کو وفاق کے خلاف اقدام پر بھی زور دے رہا ہے۔ اس لیے سوال یہ ضرور بنتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کپتان نے خود ایسا کرنے کی تلقین کی ہو اور اب ڈر ہو کہ ممنوعہ فنڈنگ، جھوٹے بیان حلفی، مالی معاملات کی بے ضابطگی اور دیگر معاملات بشمول توشہ خانہ کے بعد اب بغاوت پھیلانے اور غیر ملکی امداد کے ساتھ ساتھ وہ خود تیار کی ہوئی سازش کا شکار نہ ہوجائیں۔

فرح گوگی کی حمایت تو سمجھ آتی ہے مگر جن کے کندھوں پر بوجھ ڈالا تھا ان پر نشتر چلانے کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر آئین اور قانون کی بالادستی کو بھی تسلیم کریں اور پارلیمنٹ کو بااختیار ادارے کے طور پر نہ صرف تسلیم کریں بلکہ محاسبہ اور قانون سازی کے لیے استعمال کریں۔ خود تو الیکشن لڑنا ہے مگر منتخب ارکان سے استعفے دلوانے ہیں۔ کیا اسمبلی اور انتخابی قواعد آپ کو 10 نشستوں پر بیٹھنے دیں گے۔ نہیں اجازت ایک ہی کی ہوگی، 9 پھر خالی ہوں گی۔

اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پارلیمنٹ کو بااختیار تسلیم کرنا ہوگا— تصویر: ٹوئٹر
اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پارلیمنٹ کو بااختیار تسلیم کرنا ہوگا— تصویر: ٹوئٹر

سیاست سنجیدہ معاملہ ہوا کرتی ہے اور جمہوریت کے لیے مزاج بھی جمہوری ہوا کرتا ہے۔ نہ آپ کا مزاج جمہوری ہے اور نہ ہی رویہ۔ آپ کی جماعت سے تعلق رکھنے والی 3 خواتین ارکان قومی اسمبلی جھوٹے حلف ناموں پر رکن بنی ہوئی ہیں، لیکن جانتے بوجھتے ان کا دفاع کیا جارہا ہے۔

خیر یہ تو آپ کا مسئلہ ہے کہ آپ کتنے امین اور صادق ہیں۔ جواب بھی آپ نے ہی دینا ہے مگر جو ریاستی اداروں کے ساتھ آپ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس میں ریاست کچھ ہی عرصہ برداشت کرسکتی ہے اور آپ کو مسلسل ڈکٹیٹ کروانے کی اجازت شاید نہ مل سکے۔

اگر تحریک انصاف پاکستان کی سیاست کے مدو جزر سمجھ لے تو عوام کی خدمت کرسکے گی بصورت دیگر بڑکیں مارنے والے شیر جوان کو اڈیالہ جیل اور اسٹریچر پر قوم دیکھ رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بند گلی کا مسافر اس گلی میں جیت نہیں سکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں