اسرائیل اور ترکیہ کےدرمیان سفارتی تعلقات مکمل بحال

اپ ڈیٹ 18 اگست 2022
دونوں ممالک کے تعلقات میں 2008 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے بعد تناؤ شروع ہوا تھا —فائل فوٹو: رائٹرز
دونوں ممالک کے تعلقات میں 2008 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے بعد تناؤ شروع ہوا تھا —فائل فوٹو: رائٹرز

بحیرہ روم کے ممالک اسرائیل اور ترکیہ نے برسوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپد نے اس سفارتی پیش رفت کو 'علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم اثاثہ اور اسرائیل کے شہریوں کے لیے انتہائی اہم اقتصادی خبر' قرار دیا۔

یائر لاپد کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سفارتی پیش رفت کے نتیجے میں دونوں ممالک میں ایک بار پھر سفیر اور قونصل جنرلز تعینات کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کیلئے فلسطینیوں کی حمایت ترک نہیں کریں گے، ترکی

یہ اعلان اعلیٰ حکام کے باہمی دوروں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مہینوں کی دوطرفہ کوششوں کے بعد کیا گیا۔

ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے کہا کہ سفیروں کی واپسی 'دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کو انقرہ کے 'فلسطینی کاز سے دستبردار ہونے' سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔

مئی میں چاویش اوغلو 15 برسوں میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ترک وزیر خارجہ بن گئے، اس دورے کے دوران انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی قیادت سے بھی ملاقات کی۔

دو ماہ قبل اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کے انقرہ کے تاریخی دورے کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ ان کی ملاقات 'ہمارے تعلقات میں ایک اہم موڑ' ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے تیار ہیں، رجب طیب اردوان

دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں 2008 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے بعد تناؤ شروع ہوا تھا۔

بعد ازاں 2010 میں غزہ میں امداد لے کر ناکہ بندی کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرنے والے ترکیہ کے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت کے بعد تعلقات منجمد ہوگئے۔

سال 2016 سے 2018 تک ایک مختصر مفاہمت جاری رہی، جب فلسطینیوں کے قتل پر ایک بار پھر سفیروں کو واپس بلا لیا گیا۔

سال 2018 سے 2019 تک غزہ کے 200 سے زائد شہریوں کو اسرائیلی فورسز نے سرحدی احتجاج کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع

دونوں ممالک کے درمیان جولائی 2021 میں آئزک ہرزوگ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے عوامی سطح پر مفاہمت شروع ہوئی۔

اسرائیلی صدر نے کہا کہ تعلقات کی مکمل تجدید سے 'عظیم تر اقتصادی تعلقات، باہمی سیاحت اور اسرائیلی اور ترک عوام کے درمیان دوستی کو فروغ ملے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی صدر کا تعلقات بحال کرنے کے لیے ترکی کا دورہ

تاہم دونوں کے مابین حالیہ برسوں میں سفارتی اختلافات کے باوجود تجارت جاری تھی اور ترکیہ، اسرائیلی سیاحوں کے لیے ایک مقبول مقام بنا ہوا رہا۔

البتہ اسرائیل نے استنبول میں اپنے شہریوں کے خلاف قتل کی ایرانی سازش کا حوالہ دیتے ہوئے جون میں اپنے شہریوں کو وطن واپس آنے کی تنبیہ کی تھی۔

اس کے بعد یائر لاپد نے اس معاملے پر تعاون کے لیے انقرہ کا شکریہ ادا کیا تھا اور اسرائیلیوں نے دوبارہ ترکیہ میں اپنی تعطیلات گزارنا شروع کردی تھیں۔

اسرائیل، ترکیہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے اپنے فیصلے پر علاقائی اتحادیوں کو پریشان کرنے کے حوالے سے الرٹ رہا ہے اور آئزک ہرزوگ کو انقرہ کے دورے سے قبل قبرص اور یونان روانہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیل سے بہتر تعلقات ممکن لیکن فلسطین سے متعلق پالیسی قبول نہیں، اردوان

ترکیہ اس بات پر پر زور دے رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے معمول پر آنے سے فلسطینیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ چاوش اوغلو نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے، ہم فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع جاری رکھیں گے۔

مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کے ساتھ ساتھ، ترکیہ نے غزہ پر حکومت کرنے والے اسلامی گروپ حماس کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔

یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سیکیورٹی کے صدر ایفرائیم انبار نے کہا کہ مبصرین کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ دوطرفہ تعلقات اتنے ہی اچھے ہوں گے جتنے وہ 90 کی دہائی میں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک طیب اردوان اقتدار میں ہیں ان کے اسلامی روابط کی وجہ سے ترکیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ایک خاص حد تک دشمنی رہے گی، مثال کے طور پر وہ حماس کی حمایت جاری رکھیں گے۔

یاد رہے کہ اسرائیل نے 2007 سے غزہ کے 23 لاکھ باشندوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

HASAN Aug 18, 2022 02:10pm
امت مسلمہ کا نام ونہاد [میڈ ان چائنا] لیڈر کا اتنی جلدی رنگ اتر گیا؟