نیب ترامیم کیس: 'عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی'

اپ ڈیٹ 19 اگست 2022
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے، عدالت نیب ترامیم کے خلاف درخواست کے کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے عدالت سے تحریری دلائل جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعلیٰ عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے، 90 روز کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا، فوجداری کیسز میں 14 روز سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی، صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پلی بارگین کرنے والے کے شواہد کو ہی ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، فوجداری نظام میں گرفتاری کی ممانعت نہیں ہے، گرفتاری جرم کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے۔

اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر سے الزامات کے داغ نہیں دھلتے، اعلیٰ عدلیہ نیب عدالت کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی۔

مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: 'پارلیمان کا کوئی متبادل فورم نہیں، اس قانون پر امتناع نہیں دے سکتے'

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، سابقہ حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جاکر اپنا کردار ادا کریں، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کی قانون سازی نہین کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، تحقیقات میں مداخلت پر ازخود نوٹس لیا تھا، ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ لے کر صرف دیکھ رہے ہیں کہ کیسز چلتے ہیں یا نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے، عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کے باہر سیاسی موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیا سیاسی موسم کا عدالت کے اندر اثر ہونا چاہیے؟ کیا عدالت میں صرف آئین اور قانون کا موسم نہیں رہنا چاہیے؟

بعد ازاں کیس کی مزید سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت نے احتساب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں جنہیں صدر مملکت عارف علوی کی منظوری نہ ملنے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرنے کے بعد نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس

مذکورہ ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں قومی احتساب (دوسری ترمیم) ایکٹ 2022 کے ذریعے کی گئی ترامیم کو آئین کے خلاف ہونے کی بنا پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

عمران خان نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ نیب قانون میں ترامیم بااثر ملزمان کو فائدہ پہنچانے اور بدعنوانی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کی گئیں۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ حالیہ ترامیم صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزرا کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے اور سزا یافتہ سرکاری عہدیداران کو اپنی سزا واپس لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، چیف جسٹس

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ 'این اے او میں ترامیم پاکستان کے شہریوں کو قانون تک رسائی سے محروم کرنے کے مترادف ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کے تئیں اپنے فرائض کی خلاف ورزی کی صورت میں اپنے منتخب نمائندوں سے مؤثر طریقے سے پوچھ گچھ کر سکیں۔'

مزید برآں درخواست میں دلیل دی گئی کہ لفظ 'بے نامدار' کی دوبارہ تعریف کی گئی ہے، جس سے استغاثہ کے لیے کسی کو جائیداد کا فرضی مالک ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں