عمران خان کی مقبولیت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو لیکن ان کے دورِ اقتدار میں ایک وقت وہ بھی آگیا تھا جب ان کی شہرت اس قدر کم ہوچکی تھی کہ ارکانِ اسمبلی نے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے روابط استوار کرنا شروع کردیے تھے اور خود تحریک انصاف کے وزرا اور ذمہ دار یہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے اقتدار کو مکمل ہونے دیا جاتا تو بڑی تعداد پارٹی ٹکٹ لینے سے انکار کردیتی۔

دوسری طرف اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ بیرونِ ملک سے یہ پیغامات موصول ہورہے ہیں کہ ‘عمران ٹائیگر میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈال رہے ہیں بھلے وہ ابابیل کی چونچ میں پانی کے قطرے کے برابر کیوں نہ ہو’۔

اگر عمران خان کا ساڑھے 3 سالہ دور دیکھا جائے تو اس میں ایک بھی ایسا فلاحی منصوبہ نہیں شروع ہوا جس پر حکومت نازاں ہوتی۔ یعنی مختلف سماجی تنظیموں کے تعاون سے دسترخوان کا اہتمام بھی کیا اور انشورنس کمپنیوں کے تعاون سے علاج کی سہولیات بھی فراہم کیں ، مگر نوکریاں دینے سے متعلق کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔

جو لوگ حکومتی معاملات سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پورے ملک میں ترقیاتی پروگرام کے تحت سالانہ تقریباً 10 لاکھ نوکریوں کی گنجائش دی جاتی ہے، یعنی اگر کوئی حکومت 5 سالہ مدت پوری کرے تو 50 لاکھ نوکریاں کسی نہ کسی صورت نکل ہی جاتی ہیں، لیکن تحریک انصاف نے 50 لاکھ نوکریوں کا وعدہ اس انداز میں کیا کہ جیسے کوئی انقلاب آنے والا ہو۔

یہاں لوگوں کو لائن میں لگا کر بھی کھانا ہی دیا گیا—تصویر: ڈان/ فائل
یہاں لوگوں کو لائن میں لگا کر بھی کھانا ہی دیا گیا—تصویر: ڈان/ فائل

فلاحی ریاست کا تجربہ دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہے، یعنی وہاں بے روزگاروں کے اخراجات سرکار اٹھاتی ہے، اگر گھر نہ ہو تو میونسپل کمیٹی گھر فراہم کرتی ہے، بچوں کو مفت دودھ دیا جاتا ہے، تعلیم عام اور مفت و لازم ہوتی ہے۔ ادھیڑ عمر کے افراد کی دیکھ بھال ریاست کرتی ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو سردیوں میں خصوصی رقوم دی جاتی ہیں تاکہ سردی سے لوگ بچ سکیں۔

لیکن ہم ہیں کہ مسلسل عزت نفس کو مجروح کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ لائن بنواکر بھیک دیتے ہیں، آٹا کا تھیلا و دیگر کے ساتھ تصویر اخبار اور ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے۔ زیادتی بچوں کے ساتھ ہو یا بچیوں کے ساتھ، ہم اپنے عمل سے اسے تماشہ بنا دیتے ہیں، نہ خدا کا خوف اور نہ ہی عزت و غیرت کا۔

محترم عمران خان کے پاس اچھا مجمع اکٹھا کرنے کی زبردست صلاحیت ہے۔ وہ لوگوں کو اکٹھا کرنے والے دلفریب واقعات سنا کر خوش کرتے اور پیسے اکٹھے کرلیتے ہیں۔ موصوف کی عزت پاکستان کے ایک اسٹار کے طور پر کی جاتی رہی ہے۔ ضیا کے کوڑوں کے دور اور گھٹن کے ماحول میں ایک ہی تفریح تھی اور وہ بھی کرکٹ۔ لوگ کچھ اور تو دیکھ نہیں سکتے تھے اور پھر جب انگریز کو ہراتے تھے یا بھارتی سورماؤں سے جیتتے تھے تو عوام دل کھول کر داد دیتے تھے۔

درست ہے کہ ملک کے سیاسی نظام میں بے شمار خرابیاں ہیں اور تھیں ایسے میں بیساکھیوں کے بل پر کھڑا کیا جانے والا شخص عام حکمرانوں کی طرح اپنے اقتدار کو دوام دینے کی ہر کوشش کرنے پر تل گیا اور قانونی، غیر قانونی، اخلاقی یا غیر اخلاقی گویا کسی بھی قسم کی کوئی حرکت ایسی نہیں تھی جو نہ کی گئی ہو۔ گویا مطلق العنان حکمران ہر چیز کو، ہر اختیار کو، ہر معاملہ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے کوئی گریز نہیں کر رہا تھا۔ یہ بھی احساس نہیں تھا کہ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام موجود ہے اور اس میں شراکت داروں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے وگرنہ ایک ووٹ سے حکومت ختم ہوجایا کرتی ہے۔

عمران خان کے پاس مجمع اکٹھا کرنے کی اچھی صلاحیت ہے— تصویر: آئی این پی
عمران خان کے پاس مجمع اکٹھا کرنے کی اچھی صلاحیت ہے— تصویر: آئی این پی

بس پھر وہی ہوا کہ جمہوری طریقے سے حکومت بدلی گئی اور ادارے خاموشی سے یہ سب کچھ فریق بن کر دیکھ رہے تھے اور اسی خاموشی کے لیے سازش کا لفظ استعمال کیا گیا۔

اس واقعے کے بعد صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس ملک میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے اور کسی نہ کسی صورت حکمرانی اور مدد کے حصول کے لیے لابنگ فرم بھی استعمال کرنا شروع کردی گئی اور فرم بھی ایسی جو پاکستان کے جوہری پروگرام کی مخالفت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

زہر بھری زبان کا استعمال تو پہلے بھی کم نہیں تھا مگر اب اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ تک بات پہنچ گئی ہے اور افراد کے نام تک لینا شروع کردیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کو بھی اسی زبان درازی نے مجبور کیا کہ توہین کا نوٹس دے اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی جواب طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

معافی یا جرم کی پاداش میں قید خواہ ایک منٹ کی ہو وہ نااہلی سے نہیں بچا سکتی۔ اصولی بات یہ ہے کہ گالی کوئی بھی نکالے وہ بُری بات ہے، لیکن اگر یہی کام لیڈر کرے تو اس سے بُرا کچھ نہیں ہوسکتا۔

یہ گالی گلوچ، دھمکی، غصہ اور آپے سے باہر ہونا کسی بھی لیڈر کو زیب نہیں دیتا، مگر ذاتی تجربہ کہتا ہے کہ شہباز گِل کے بغاوتی کلمات جس کے پیچھے ایک مکمل سازش پنہاں ہے اب اس کا راز بھی فاش ہونے کے قریب ہے۔

اس کے علاوہ ممنوعہ فنڈنگ کی تفصیلات آچکی ہیں، مقدمات کا ڈھیر لگ رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ‘ات خدا دا ویر’ کا مقولہ درست ہوتا نظر آتا ہے۔ جب حکمران طبقہ یا فردِ واحد خود کو عقلِ کُل تصور کرلے تو پھر قدموں کے نیچے سے قالین نکلتا محسوس بھی نہیں ہوتا۔

درست ہے کہ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال بہت ناخوشگوار ہوچکی ہے مگر اس کو فرشتوں نے نہیں انسانوں نے ہی ٹھیک کرنا ہے لیکن اپنے اپنے مقام پر۔ فلاحی ریاست نعروں سے نہیں عمل سے بنتی ہے اور عمل کے لیے نیت اور انصاف کا ہونا ازحد ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں