4 برسوں میں ہراسانی کی 5 ہزار شکایات پر کارروائی کی گئی، وفاقی محتسب

15 ستمبر 2022
کشمالہ خان ڈیولپمنٹ ایجنڈے کے مرکز میں خواتین کے عنوان سے منعقدہ سیشن کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے—تصویر: وفاقی محتسب ٹوئٹر
کشمالہ خان ڈیولپمنٹ ایجنڈے کے مرکز میں خواتین کے عنوان سے منعقدہ سیشن کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے—تصویر: وفاقی محتسب ٹوئٹر

پاکستان ہراساں کرنے سے متعلق معاملات سے نمٹنے میں پیش پیش ہے، گزشتہ چار سال میں 5 ہزار کیسز نمٹائے گئے اور اس سلسلے میں یورپ میں تعینات ایک سفیر اور ایک پولیس افسر سمیت کئی اعلیٰ عہدیداروں کو معطل کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان پہلا ملک ہے جس نے پارلیمنٹ میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر نمائندگی شروع کی اور اب اس کا 30 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔

اس بات کی نشاندہی وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ خان نے 'ڈیولپمنٹ ایجنڈے کے مرکز میں خواتین' کے عنوان سے منعقدہ سیشن کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کی۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ 4 سالوں میں ہراسانی کے کیسز میں غیر معمولی اضافے کا انکشاف

انسانی حقوق کی پارلیمانی سیکریٹری سیدہ نوشین افتخار نے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول پر ایشیا پیسیفک ریجن پارلیمنٹس کے تیسرے علاقائی سیمینار کے سلسلے میں منعقدہ سیشن کی سربراہی کی۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، کشور زہرہ، ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، پارلیمانی کاکس کی نمائندہ شاہدہ رحمانی اور کشمالہ خان بحث کا حصہ تھیں۔

اپنے ابتدائی کلمات میں سیدہ نوشین افتخار نے کہا کہ خواتین کے کام کرنے کے حق اور کام کی جگہ پر حقوق کو ایشیا پیسیفک کے خطے میں اعلیٰ سطح کی غیر رسمی اور کمزور ملازمتوں کی وجہ سے روکا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 20 ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں خواتین کی افرادی قوت کا تقریباً 40 فیصد ہے لیکن ان میں سے صرف 14.4 فیصد سینئر انتظامی عہدوں پر فائز ہیں جبکہ عالمی اوسط 27.9 فیصد ہے۔

مزید پڑھیں: کام کی جگہ پر ہراسانی کے قانون کا دائرہ محدود ہے، سپریم کورٹ

رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے حالیہ سیلاب کے دوران متاثر ہونے والی خواتین کی حالت زار اور پاکستان کی جانب سے قانون سازی کے عمل میں حصہ لینے والی خواتین کی مدد کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر تفصیلی پریزنٹیشن دی۔

سیشن سے خطاب کرتے ہوئے، شاہدہ رحمانی نے کہا کہ کاکس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں کہ خواتین، خواجہ سراؤں اور خصوصی ضروریات کے حامل افراد کو ان کے حقوق فراہم کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے 70 فیصد امور خواتین چلاتی ہیں۔

وزیر مملکت برائے خزانہ اور محصولات عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول صنفی مساوات اور خواتین کی شرکت پر منحصر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے، شیری رحمٰن

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا کہ عالمی شمالی اور عالمی جنوب کے درمیان سودے بازی پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ ابھی یہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے کام نہیں کر رہا ہے جو اس مسئلے میں ایک فیصد بھی حصہ ڈالے بغیر دوسروں کے اخراج کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ فصلوں، مویشیوں، ذریعہ معاش، انسانی صحت اور معاشی استحکام کو پہنچنے والا نقصان کے پیمانے، سطح اور شدت کی وجہ سے ایک دہائی تک محسوس کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کے بہت سے علاقوں تک اب بھی صرف کشتی کے ذریعے ہی پہنچنا ممکن ہے، کیونکہ پانی صرف وہاں کھڑا ہے اور زمین سطح سمندر سے نیچے ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ خشک زمین کی تلاش میں موسمیاتی پناہ گزینوں کی اندرونی نقل مکانی کو جنم دیا ہے جبکہ اقتصادی نقصانات کا تخمینہ 40 ارب ڈالر تک جانے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں