ایران میں مظاہرے: امن یقینی بنانے کیلئے ’دشمنوں سے مقابلہ‘ کریں گے، ایرانی فوج

23 ستمبر 2022
ایران میں احتجاجی مظاہروں کے خلاف کارروائی میں کم از کم 36 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں — فوٹو: رائٹرز
ایران میں احتجاجی مظاہروں کے خلاف کارروائی میں کم از کم 36 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں — فوٹو: رائٹرز

ایران کی افواج نے کہا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی اور امن کو یقینی بنانے کے لیے ’دشمن کا مقابلہ‘ کریں گے جیسا کہ ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں خاتون کے قتل پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں میں تیزی آئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی فوج نے کہا ہے کہ ’اس طرح کے پریشان کن حالات اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے دشمن کی چال کا حصہ ہیں۔‘

مزید پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

ایران میں اس وقت عوامی سطح پر مظاہرے شروع ہوئے جب گزشتہ ہفتے ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں غیر موزوں لباس پہننے پر گرفتار 22 سالہ نوجوان خاتون مہسا امینی ہلاک ہوگئی تھیں۔

ایران کی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ آج ملک میں حکومت کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

درین اثنا ایران میں مقیم نیویارک کے انسانی حقوق کے گروہ نے کہا کہ ایران میں احتجاجی مظاہروں کے خلاف کارروائی میں کم از کم 36 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

سرکاری سطح پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 17 بتائی گئی جن میں 5 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں تاہم ایران میں کام کرنے والے سینٹر فار ہیومن رائٹس ایران (سی ایچ آر آئی) کا کہنا ہے کہ ان کے ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دشمن ایران کو کمزور کرنے کے لیے احتجاج کو استعمال کررہے ہیں، خامنہ ای

سی ایچ آر آئی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ حکام نے اعتراف کیا کہ ایران میں جاری احتجاج کے ساتویں دن 17 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاک افراد کی تعداد 36 ہوگئی ہے۔

سی ایچ آئی آر نے کہا کہ ہلاکتوں میں اضافے کی توقع ہے، دنیا کے رہنماؤں کو ایران پر زور دینا چاہیے کہ ملک میں جاری احتجاج کو کسی طاقت کے استعمال کے بغیر جاری رہنے دیں۔

سی ایچ آئی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز، آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جہاں مظاہرین خون میں لت پت دکھائی دے رہے ہیں۔

مظاہرین کی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور پاسدارانِ انقلاب کے مقتول کمانڈر قاسم سلیمانی کی تصاویر کو نذرِ آتش کیا جارہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشل اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنان نے کہا کہ جواب میں سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر شیل، دھات کے بنے چھرے، آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اِرسا‘ نے کہا کہ مظاہرین نے پولیس پرپتھراؤ کیا، پولیس کی گاڑیاں نذرِ آتش کردیں اور حکومت مخالف نعرے بھی لگائے۔

مزید پڑھیں: ایران: ’حجاب‘ کے خلاف احتجاج پر 29 خواتین گرفتار

ایران میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں شدید مظاہرے بھڑک اٹھے جہاں پولیس تھانوں اور سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں کو جلایا گیا، ان پر حملے کیے گئے مگر مظاہروں میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔

نوجوان خاتون کی ہلاکت نے پہلے سے حساس معاملات بشمول شخصی آزادی پر پابندی، خواتین کے لیے مخصوص ڈریس کوڈ اور پابندیوں سے دوچار معیشت کے خلاف غم و غصے میں دوبارہ اضافہ کردیا ہے۔

ایران کے علما، حکمراں کو 2019 میں پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کے طرز کے مظاہروں کا ایک بار پھر خوف ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران میں سب سے خونی مظاہرے تصور کیے جاتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں