وزیراعظم ہاؤس سے آڈیو لیک ہونا باعث تشویش ہے، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2022
مولانا فضل الرحمٰن ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم ہاؤس سے آڈیو لیکس ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس سے سختی سے نمٹنا ہوگا۔

ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملکی معیشت کے حوالے سے پاکستان کا گزشتہ تین چار برسوں کا ریکارڈ بہت افسوسناک ہے، گویا کہ سابقہ حکومت کا ایجنڈا تھا کہ کس طرح سے ملک کی معیشت کو تباہ کیا جائے، یعنی پاکستان کے خاتمے کا ایجنڈا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں ریاستوں کی بقا کا سب سے بڑا سبب اقتصادی استحکام ہی ہے، دفاعی قوت بھی دوسرے درجے کی چیز بن گئی ہے، پہلی چیز ملکی معیشت ہے، اگر ملکی معیشت کے اعتبار سے آپ کھوکھلے ہوجاتے ہیں تو پھر ریاست اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہم نے معاہدے کرکے اپنی معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا، مولانا فضل الرحمٰن

سربراہ جے یوآئی (ف) نے کہا کہ غیر مسلم دنیا میں چین ہمارا سب سے مضبوط دوست ہے، وہ سی پیک کو رول بیک کرنے پر ہم سے ناراض ہوگیا، اس نے ہم سے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا، سی پیک چین کی بہت بڑی سرمایہ کاری تھی جس کے لیے 1995 سے کام شروع ہوا تھا، ایک طویل سفر کے بعد 2015 میں اس پر کام شروع ہوا، عمران خان کی حکومت نے صرف سی پیک کو بند ہی نہیں کیا بلکہ دو ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کچھ چیزیں خفیہ بھی ہوتی ہیں، انہوں نے ان معاہدوں کے خفیہ حصے امریکا اور آئی ایم ایف کو فراہم کیے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ اس قدر بددیانتی ہے اور اپنے اس حلف سے انحراف ہے جو کوئی شخص بطور وزیر اعظم حلف اٹھاتے ہوئے ریاستی رازوں کے تحفظ کے لیے لیتا ہے، جب انہوں نے اس حلف کی پاسداری بھی نہ کی تو پھر اس سے بڑھ کر امریکی غلامی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کے لیے ان کو اپنا حلف بھی ایک روایتی حلف نظر کیا۔

انہوں نے کہا کہ اپنے ملک کے اسٹیٹ بینک کو انہوں نے آئی ایم ایف کے حوالے کردیا جسے انہوں نے اسٹیٹ بینک کی آزادی کا نام دے دیا اور آج وہ بینک نہ حکومت کو جواب دہ ہے نہ آپ کے وزیراعطم، کابینہ اور پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے اور پھر آپ حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ ڈالر کے ریٹ کیوں بڑھ رہے ہیں، روپے کی قدر میں کیوں کمی ہو رہی ہے، یہ معاملہ شاید اب حکومت کے اختیار سے ہی باہر ہوچکا ہے اور یہ تحفہ بھی عمران خان ہی نے قوم کو دیا تھا۔

'اسحٰق ڈار کے تجربات سے معیشت کو درست کیا گیا'

ان کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی سے متعلق مجھ سے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا لیکن اگر حکومت ایسا سوچ رہی ہے تو اس کے پیچھے ملکی خدمت کا جذبہ ہی کارفرما ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر سابق دور حکومت میں ان کی خدمات وتجربات سے فائدہ اٹھا کر ملک کی معیشت کو درست کیا گیا تھا تو کیوں نہ ایک بار پھر انہیں وطن واپس بلا کر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کےخلاف اب تک کارروائی نہ ہونے پر اپنی حکومت سے شاکی ہوں، فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عمران خان نے پوری سیاست کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر سیاسی رہنماؤں کے خلاف کی، جتنے کیسز انہوں نے سیاستدانوں کے خلاف بنائے، ایک کیس بھی کسی سیاستدان کے خلاف ثابت نہیں کر سکے، ان کا مقصد صرف سیاستدانوں کو ذلیل و رسوا کرنا، ان کو عدالتوں می گھسیٹنا، ان کو نیب میں گھسیٹنا تھا۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ذاتی طور پر مجھے مشاہدہ ہے کہ اداروں نے اپنے کام چھوڑ کر میری کوئی جائیداد اور کوئی پلاٹ تلاش کرنے کے لیے 4 سال ضائع کردیے، اس طرح کی بیہودہ صورتحال میں انہوں نے ملکی کی اداروں کو بھی ضائع کیا، ملکی وسائل کو بھی ضائع کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی اپنی کارکردگی کا یہ حال تھا کہ ان کے دور حکومت میں ملک کرپشن کی عالمی درجہ میں 116 سے 124 پر پہنچ گیا، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ان کے دور حکومت میں کرپشن میں 4 سے 5 فیصد اضافے سے زیادہ کی بات کی، جب ان کی جانب سے تیار کردہ احتساب کمیشن کی زد میں ان کے وزرا آئے تو انہوں نے وہ احتساب کمیشن ہی ختم کردیا۔

'عمران خان ملک دشمن ثابت ہوئے'

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ اب جو کہتے ہیں کہ مجھ سے غلطیاں ہوئیں، غلطی کی بات نہیں ہے بلکہ آپ کی اہلیت ہی نہیں ہے، 4 سے 5 تک وزرائے خزانہ تبدیل کیے، 5 ایف بی آر کے چیئرمین تبدیل کیے، ان کے وزیر خزانہ کی آڈیو لیک ہوئی جس میں اس نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر ملک کو دیوالیہ کرنے کی کوشش کی، وہ شخص اس حد تک تعصب میں ڈوب گیا کہ وہ چاہتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے اور پھر وہ اس ملک میں سیاست کرے یا یہ کہ ان کا ایجنڈا ہی یہ تھا اور کیونکہ ان کی حکومت کو ہم نے گرادیا تو ان کا ایجنڈا نامکمل رہ گیا اور حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے ایجنڈے کی تکمیل وہ اس طرح کرنا چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: تمام سیاسی جماعتیں متعصبانہ سوچ ترک کر کے مل کر فیصلے کریں، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ عمران خان جس طرح سے تین چار ماہ سے پورے پاکستان میں پاگلوں کی طرح گھوم رہے ہیں، ہر روز کوئی نہ کوئی نئی بات کرتے ہیں، وہ خط کدھر گیا جو وہ لہراتے تھے، غیرت کے ساتھ کاغذ لہرا کر بیرونی سازش کا بتاکر اسمبلی چھوڑی، عدالت نے کہا کوئی سازش نہیں ہوئی، امریکا اور اس کے اداروں نے کہا کوئی سازش نہیں ہوئی، پھر خط کو چھوڑنا پڑا تو کہا کہ میرے قتل کی سازش ہو رہی ہے، بتاؤ نا کس نے سازش کی ہے، بتاؤ نا ایکس وائے زیڈ کون ہیں، اس طرح سے اپنے آپ کو مظلوم و معصوم بنا کر پیش کرنے سے خود کو کوئی اہم شخص ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا عمران خان فارن فنڈنگ کیس میں عالمی چور ثابت ہوئے، اسرائیلیوں، یہودیوں، بھارتیوں، امریکیوں سے مالی مدد ثابت ہوچکی، سپریم کورٹ کے ججوں اور ان کے فیصلوں کے مطابق آپ ملک دشمن ثابت ہوئے ہیں، ہر ہفتے بعد ایک نیا مؤقف اپنایا، نئے بیانیے کے ذریعے خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی اور ہر لحاظ سے نااہل ثابت ہوئے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس طرح سے سیاست نہیں ہوتی جس طرح سے وہ سیاست کر رہے ہیں، جس طرح سے انہوں نے اپنے دور حکومت میں ملکی معیشت کو تباہ کیا، آج حکومت سے باہر آنے کے بعد بھی وہ یہ سوچتا ہے کہ ملکی تباہی کا ایجنڈا کیوں نامکمل رہا اور تاریخ ان کے بارے میں یہی کچھ لکھے گی۔

'آڈیو لیکس کے خلاف مضبوط کارروائی ہونی چاہیے'

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس سے آڈیو لیکس ہونا باعث تشویش ہے اور حکومت کو اس سے سختی سے نمٹنا ہوگا، آپ بتائیں کہ پاناما کوئی کیس نہیں تھا لیکن بنایا گیا، سوال پاناما، نتیجہ اقامہ نکلا، پوری حکومت گرا دی گئی اس کے اوپر، ڈان لیکس کے معاملے کو کتنا بڑا ایشو بنایا گیا کہ وزیراعظم ہاؤس سے ایک جملہ کیسے باہر گیا ہے اور آج وہاں سے آڈیو کالز لیک کی جارہی ہیں، میں وزیراعظم کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس معاملے پر سخت ہاتھ ڈالیں کہ کس نے ہماری گفتگو کو ہیک کیا ہے، اس پر ہمیں ریاستی سطح پر مضبوط ہاتھ ڈالنا پڑے گا اس کے خلاف مضبوط کارروائی ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: 'فتنہ عمرانیہ' کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑنا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ سیلاب کے باعث ملک بھر میں تباہی مچی ہوئی ہے، وفاقی سطح پر 70 ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے، ضرورت کے مطابق اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے، سیلاب کے دوران کسی صوبے سے صوبائی حکومتوں کی کوئی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آئی، اس عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے، سیاست کرنے اور سیاسی مفادات کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کرنے پر تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔

’جنس پر اعتراض اٹھانے کا کسی کو حق نہیں’

ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کا لفظ خواجہ سرا یا خنثیٰ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، اس کے لیے انٹرسیکس کا لفظ استعمال ہوتا ہے جب کہ ٹرانس جینڈر کا جنس کی تبدیلی کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں ہے، کچھ چیزیں اور تجاویز ایسی ہیں جن پر طبی لحاظ سے بھی عمل کیا جاسکتا ہے کہ میڈیکل بورڈ بٹھایا جائے لیکن کسی شخص کو اس بات پر اعتراض اٹھانے کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کہے کہ مجھے کیوں خاتون یا مرد پیدا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان معاملات پر سوالات اٹھانا اللہ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے، بدقسمتی سے این جو اوز جب کام کرتی ہیں تو وہ 20 سال قبل سے اس کے لیے راہ ہموار کرنا شروع کرتی ہیں، وہ اتنے معصومانہ جملوں اور الفاظ کے ساتھ آپ کے سامنے آتے ہیں اور لابنگ کرتے ہیں کہ بعض اوقات علما سے بھی فتویٰ لے لیتے ہیں اور اس پر بنیاد بناکر عمارتیں کھڑی کرتے ہیں اور اس کے نتائج کا انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ جنہوں نے ابتدا میں ان کی حمایت کی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس طرح کی کچھ خواتین ہوتی ہیں جن کا تعلق مختلف جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے، ان کا نظریہ ایک ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے اپنی پارٹیوں میں لابنگ کرتی ہیں، اس کے لیے حکمت عملی بناتی ہیں کہ جس دن کورم پورا نہ ہو، چھٹی کا دن آنے والا ہو، اکثر اراکین جاچکے ہوں، مذہبی افراد وہاں ہوں تو چپکے سے اس کو وہاں سے نکال لیں، ہمیں تجربہ ہے کہ کس طرح سے اس قسم کی واردات کی جاتی ہے۔

'نومبر والی تبدیلی معمول کے مطابق میرٹ پر ہوگی'

مہنگائی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں حکومت میں ہوتے ہوئے اس بات پر پریشان ہوں اور جو جنگ ہم لڑ رہے ہیں، وہ میں بیان بھی نہیں کر سکتا، جس نیٹ ورک کے اندر ہمیں جکڑ دیا گیا ہے اس سے نکلنے کے لیے ہمیں قومی یک جہتی کی ضرورت ہے، مہنگائی ایک معروضی مشکل ہے، اس کے تانے بانے ریاست اور اس کے اداروں سے ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے خلاف تحریک کے دوران میں نے مشورہ دیا تھا کہ کل کو آپ کی حکومت آئے گی تو آپ کو بھی اس طرح سے مشکلات کا سامنا ہوگا، میں نے مشورہ دیا تھا کہ مہنگائی کا عنوان آپ کے اپنے گلے نہ پڑ جائے اور وہی آج پھر ہو رہا ہے کہ وہ آج ہمارے اپنے گلے پڑ رہا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کس طرح سے اس مشکل صورتحال سے نکلا جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں جس مشکل صورتحال کا سامنا ہے اس کی وجہ ماضی کی ہماری ریاستی سطح کی وہ پالیسیاں ہیں جن میں بہت کمزوریاں رہی ہیں کہ آج ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں اور جب ہم یہ سب سنبھال رہے تھے تو کسی کو یہ نہیں بھایا، یہ حکومت قلیل المدت حکومت ہے، اس میں ہمارا حکومت کو مشورہ ہے کہ انہیں بھی قلیل المدت بنیادوں پر منصوبوں پر کام کرنا ہوگا۔

نومبر میں ملک کے اہم عہدے پر تقرر سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نومبر میں ہونے والی تبدیلی معمول کے مطابق میرٹ پر ہوگی، آئین کے مطابق وزیراعظم کے اختیار سے ہوگی، عمران خان کھلنڈرا ہے، اس نے ملک کی سیاسی اصطلاحات کو تبدیل کردیا ہے، وہ عوام میں بے معنی اور غیر سنجیدہ بیانات دیتے ہیں اور عوام کا ایک طبقہ اس طرح کی چیزوں کے پیچھے دوڑتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں