امریکا، پاکستان سیلاب سے نمٹنے اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کیلئے متحرک

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2022
بلاول بھٹو کی محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندے برائے تجارتی اور کاروباری امور دلاور سید سےملاقات—فوٹو:بلاول بھٹو ٹوئٹر
بلاول بھٹو کی محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندے برائے تجارتی اور کاروباری امور دلاور سید سےملاقات—فوٹو:بلاول بھٹو ٹوئٹر

پاکستان اور امریکا کے درمیان آج 26 ستمبر بروز پیر واشنگٹن میں وزارتی سطح کے مذاکرات ہوں گے جس سے دونوں ممالک کی جانب سے طویل تعطل اور وفقے کے بعد ادارہ جاتی رابطوں کو دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی کا اشارہ ملتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری 3 روزہ دورے پر اتوار کے روز واشنگٹن پہنچے جہاں وہ سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے ملاقات کریں گے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندے برائے تجارتی اور کاروباری امور دلاور سید سے بھی علیحدہ ملاقات کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کے دورے سے قبل پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکیورٹی امور پر مذاکرات مکمل

یہ ملاقاتیں دونوں پرانے اتحادیوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی دوطرفہ خواہش کی عکاس ہیں، اس دوران وزیر خارجہ اہم کانگریسی لیڈروں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

سرکاری سطح پر ملاقاتوں اور بات چیت کے حوالے سے دونوں ممالک نے معمول کے مطابق پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ملاقاتیں پاکستان میں سیلاب سے متعلق امدادی کوششوں کو اجاگر کرنے اور دوطرفہ تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے کے سلسلے میں ہیں۔

اس سے قبل ڈان کو دی گئی بریفنگ میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قونصلر ڈیرک شولے نے تسلیم کیا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے وہ چین سے مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا کرتے ہوئے جو بائیڈن انتظامیہ نہیں چاہتی کہ اسلام آباد، بیجنگ اور واشنگٹن میں سے کسی ایک ملک ایک کا انتخاب کرے۔

مزید پڑھیں: ’قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پاکستان معاوضہ نہیں، ماحولیاتی انصاف چاہتا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ ممالک اپنی مرضی سے اپنے فیصلے کرنے کے قابل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا چین کے ساتھ مقابلے سے نہیں ڈرتا لیکن ہم منصفانہ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس گفتگو سے بلکل واضح ہوتا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتا ہے جو چین کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کو برقرار رکھنے کے ساتھ امریکا کے ساتھ بطور ایک قریبی اتحادی کے بھی اپنے تعلقات کو متاثر نہ ہونے دے۔

لیکن حالیہ ملاقاتوں اور بات چیت کے دوران سب سے دیادہ اہم مسئلہ وہ ہے جو اس وقت نہیں تھا جب کہ ان مذاکرات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، وہ مسئلہ رواں سال آنے والا تباہ کن سیلاب ہے جس نے پاکستان کو معاشی بحران کے قریب پہنچا دیا ہے۔

پاکستان رواں موسم گرما میں ملک میں آنے والی تباہی کے پیمانے کے مطابق عالمی امداد کا خواہاں ہے جو اسے تاحال نہیں مل رہی۔

واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اتوار کے روز کیے گئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران میں نے سیلاب سے نمٹنے کے حوالے سے جو چیز میں نے محسوس کی وہ عالمی امداد کی امید تھی جس کی فراہمی تاحال سست روی کا شکار ہے۔

لیکن اس بحران سے نمٹنے میں سب سے بڑی رکاوٹ عالمی امداد کی کمی نہیں بلکہ اندرون ملک سیاسی پولرائزیشن ہوسکتی ہے۔

واشنگٹن کے ایک اور تھنک ٹینک بروکنگز میں پاکستان کی اسکالر مدیحہ افضل نے بھی اپنی ٹوئٹ میں اس مسئلے کو اجاگر کیا۔

انہوں نے لکھاکہ ’پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن اب اتنی بڑھ چکی ہے کہ حالیہ سیلاب کی تباہی سمیت کوئی بھی چیز اسے کم کرنے کے قابل نہیں دکھائی دیتی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں