پاکستان میں سیلاب کے بعد غریب ممالک کیلئے معاوضے کی اہمیت مزید اجاگر

26 ستمبر 2022
سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب پاکستان کی جانب سے 30 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب پاکستان کی جانب سے 30 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کے تباہ کن سیلاب نے آلودگی پھیلانے والے امیر ممالک کو جنہوں نے فوسل فیول کے بڑے پیمانے پر استعمال کے ذریعے اپنی معیشتوں کو ترقی دی، کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی بحران کے باعث ہونے والے تباہ کن اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے معاوضہ دیا جائے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ان دنوں اس طرح کے مالی تعاون کے لیے پسندیدہ اصطلاح ’نقصان اور خسارہ‘ کی ادائیگی ہے لیکن کچھ مہم چلانے والے اس مسئلے کو آب و ہوا سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے طور پر اجاگر کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ نسلی انصاف کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن غلام لوگوں کی اولاد کے لیے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بیلجیئم میں مقیم موسمیاتی کارکن اور پاکستان کے لیے سابقہ موسمیاتی مذاکرات کار میرا غنی نے کہا کہ صنعتی انقلاب کی ایک تاریخی مثال موجود ہے جس کی وجہ سے کاربن کے اخراج اور آلودگی میں اضافہ ہوا، اس کے علاوہ استعماری قوتوں کی بھی ایک تاریخ ہے اور وسائل، دولت ، مزدوروں کو لوٹنے اور نچوڑنے کی بھی تاریخ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قرض دہندگان کو پاکستان کے قرضوں کی ادائيگياں معطل کردينی چاہئیں، اقوام متحدہ

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی بحران ظلم و جبر کے باہم جڑے ہوئے نظاموں کا مظاہرہ ہے اور یہ استعمار کی ہی ایک قسم اور شکل ہے۔

حالیہ سیلاب کے دوران پاکستان میں اب تک تقریباً ایک ہزار 600 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، کئی لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور معاشی بحران کا شکار حکومت کا تخمینہ ہے کہ موسمیاتی تباہی سے ملک کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی سے متعلق مہم چلانے والے اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ گلوبل ساؤتھ میں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار ممالک سب سے کم اس کے ذمہ دار ہیں، مثال کے طور پر پاکستان گلوبل گرین ہاؤس امیشن کا ایک فیصد سے بھی کم پیدا کرتا ہے جب کہ جی 20 ممالک اس کے اخراج کے 80 فیصد ذمے دار ہیں۔

ترقی یافتہ معیشتوں نے 2020 تک کم ترقی یافتہ ممالک کو 100 ارب ڈالر دینے پر اتفاق کیا تھا، یہ ایک ایسا وعدہ تھا جو نبھایا نہیں گیا یہاں تک کہ جو فنڈز جاری بھی کیے گئے وہ بھی قرضوں کی شکل میں دیے گئے۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کے عالمی ماہرین کا سیلاب متاثرین کی امداد میں اضافے کا مطالبہ

انڈیانا میں نوٹر ڈیم یونیورسٹی میں انوائرمینٹ اینڈ پیس اسٹڈی کی اسسٹنٹ پروفیسر مائرہ حیات نے کہا کہ ہمارا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ گلوبل نارتھ ہمارے سیارے کی آج کی حالت کا زیادہ ذمہ دار ہے۔

ماحولیاتی سائنسدانوں کے گروپ ورلڈ ویدر ایٹربیوشن نے دریافت کیا کہ موسمیاتی تبدیلی ممکنہ طور پر سیلاب میں معاون ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن تباہ کن اثرات دیگر مقامی عوامل کے علاوہ بہت زیادہ گنجان آباد انسانی بستیوں، انفرا اسٹرکچر جیسے (گھروں، عمارتوں، پلوں) اور زرعی زمین کے سیلاب کی گزرگاہوں کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے بھی تھے۔

نقصان اور خسارے کی ادائیگیوں کے معاملے کو اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرس نے نومبر میں ہونے والی عالمی موسمیاتی سربراہی کانفرنس میں بامعنی کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تقویت دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں