سی سی پی او تبادلے کا معاملہ ٹھنڈا، ٹرانسفر آرڈرز پنجاب حکومت کو اب تک موصول نہ ہوئے

26 ستمبر 2022
آفیسر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے تبادلے کے احکامات جاری کرنے کے سات روز کے اندر چارج چھوڑنا ہوتا ہے—تصویر: اسکرین گریب
آفیسر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے تبادلے کے احکامات جاری کرنے کے سات روز کے اندر چارج چھوڑنا ہوتا ہے—تصویر: اسکرین گریب

لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) غلام محمود ڈوگر کے تبادلے وفاق اور صوبائی حکومت کے حالیہ تنازع سے 'کچھ ظاہر نہیں ہوتا' کیونکہ صوبائی حکام کو ابھی تک باضابطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن (ای ڈی) سے افسر کے تبادلے کے احکامات موصول نہیں ہوئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 20 ستمبر کو جب سی سی پی او کے تبادلے کے احکامات سوشل اور روایتی میڈیا پر آئے تو ہلچل مچ گئی اور پرویز الٰہی کی زیر قیادت پنجاب حکومت نے مرکز کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ غلام محمود ڈوگر کی خدمات واپس نہیں کرے گی۔

جنہوں نے مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے دو وفاقی وزرا مریم اورنگزیب اور میاں جاوید لطیف کے علاوہ سرکاری زیر انتظام پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے دو سینئر عہدیداروں کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 'مذہبی منافرت کو ہوا دینے اور ان کی زندگی خطرے میں ڈالنے' کے الزام میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور تنازع: وفاق اور پنجاب کے درمیان تناؤ میں اضافہ

اس معاملے نے میڈیا نے اس وقت مزید زور پکڑا جب وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے زور دے کر کہا کہ پنجاب کا کوئی بھی سول افسر پنجاب حکومت کی باضابطہ اجازت کے بغیر وفاقی حکام کو رپورٹ نہیں کرے گا۔

بعد میں غلام محمود ڈوگر نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ وہ اس چارج سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اس کے نتیجے میں انہیں وزیر اعلیٰ نے بلایا اور 'ہمت دکھانے' پر ان کی پیٹھ پر تھپکی دی گئی تھی۔

جہاں مسلم لیگ (ن) وفاقی افسر کے صاف انکار پر غصے میں آئی، پارٹی کے سینئر رہنما رانا مشہود نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ 'سی سی پی او لاہور محمود ڈوگر نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو قبول نہ کرتے ہوئے بطور وفاقی سرکاری ملازم اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے'۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور بیوروکریسی میں شامل لوگ غلام محمود ڈوگر کے مؤقف کو انکار سمجھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ان کو دی جانے والی سزا پر بات کرنے لگے۔

مزید پڑھیں: سی سی پی او لاہور کا تبادلہ، صوبائی حکومت کا وفاق کو خدمات واپس کرنے سے انکار

قواعد کے مطابق، فیڈرل سروس آفیسر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے تبادلے کے احکامات جاری کرنے کے سات روز کے اندر چارج چھوڑنا ہوتا ہے۔

تاہم بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کی بات یہ ہوگی کہ محمود ڈوگر کے تبادلے کے احکامات ابھی تک پنجاب حکومت کو موصول ہی نہیں ہوئے۔

چیف سیکریٹری کے دفتر کے ذرائع ڈان کو بتایا کہ 'پنجاب کے چیف سیکریٹری کے دفتر کو ویک اینڈ تک سی سی پی او لاہور کے تبادلے کا کوئی حکم موصول نہیں ہوا تھا'۔

ادھر پنجاب کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ کرنل محمد ہاشم نے فیصل آباد میں بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ پنجاب کو ابھی تک سی سی پی او لاہور کے تبادلے کا کوئی آرڈر موصول نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس میں تقرر و تبادلے پر وزیراعلیٰ اور آئی جی میں اختلافات ختم

ایک سینئر بیوروکریٹ نے اس معاملے پر ساری بحث کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ایسی بحث شروع کرنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ پنجاب حکومت کو باضابطپہ طور پر تبادلے کے احکامات موصول ہونے کے بعد افسر کو سات روز (جواب دینے کے لیے) ملیں گے۔

طریقہ کار کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باضابطہ طور پر احکامات موصول ہونے کے بعد چیف سیکریٹری انہیں سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے انتظامی سیکریٹری کو بھیجیں گے، جو اسے پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کو ان کی رائے کے لیے بھیجیں گے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جس کے بعد بالآخر پنجاب حکومت کو ٹرانسفر آرڈر کا جواب دینا ہوگا اور وہ وفاقی حکومت سے اسے منسوخ کرنے کی درخواست کر سکتی ہے کیونکہ اسے صوبے میں افسروں کی خدمات کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ الٰہی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ غلام محمود ڈوگر کو فارغ نہیں کریں گے اور افسر کو پنجاب میں 'اچھا کام' کرتے رہنا چاہیے اور سی سی پی او کو پنجاب حکومت کی جانب مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں