سینیٹ اجلاس: ٹرانس جینڈر ترمیمی بل 2022 کمیٹی کے سپرد

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2022
ترمیمی بل پی ٹی آئی کی سینیٹر نے پیش کیا — فوٹو: ڈان نیوز
ترمیمی بل پی ٹی آئی کی سینیٹر نے پیش کیا — فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ میں مخنث افراد کے حقوق اور تحفظ سے متعلق پیش کیا گیا ترمیمی بل 2022 متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان کا اجلاس ہوا جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے ٹرانس جینڈر ترمیمی بل پیش کیا، جو کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ پر شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا، وفاقی وزیرقانون

سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اللہ سے معافی مانگیں، ہم نے اس ایوان میں بیٹھ کر غلطی کی، ماضی میں بل کی منظوری کے وقت میں بھی موجود تھا، غلطی ہوگئی اس وقت مخالفت نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈرز خواجہ سرا نہیں ہیں، خواجہ سرا اللہ کی مخلوق ہیں، جلدی قانون میں تبدیلی کی جائے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں شریعت، دین اور آئین کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے، یہ قانون 4 سال پہلے بنا تھا، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی سنا گیا اور انہوں نے بھی حمایت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، یہ اللہ ہی کی مخلوق ہیں، ان کا احترام کیا جائے، سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں شناختی کارڈ اور نوکریاں دی جائیں، ترامیم آئی ہوئی ہیں، کمیٹی میں بیٹھ کر بات ہوگی۔

وزیر قانون نے کہا کہ اس معاملے پر سیاست نہ کریں، نیت سب کی ٹھیک ہے، ہم بھی اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے اس ہاؤس سے باہر بیٹھے لوگ ہیں، اس ملک میں شدت پسندی کی پہلے کوئی کمی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں سماعت، متعدد افراد کو فریق بننے کی اجازت

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ خواجہ سراؤں سے متعلق بل پر ترامیم لایا، جس کے بعد میرے خلاف ایک مہم شروع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے بارے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون اسلام کے منافی ہے، اس لیے ان ترامیم کی منظوری کا عمل تیز کیا جائے، حکومت نے بھی کہا ہے کہ موجودہ قانون میں خرابی ہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ خواجہ سراؤں سے متعلق قانون سیاست کی نذر ہو چکا ہے، محسن عزیز نے بھی ایک بل دیا ہے وہ بھی کمیٹی کے سپرد کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے، خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح حسب معمول زندگی گزار سکتے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا، یہ درخواست اسلامی ماہر قانون ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں ‘ہرمافروڈائٹ بچوں’ کی آزادی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ بھیک مانگنے، ناچنے اور جسم فروشی کے بجائے ‘باعزت طریقے’ سے زندگی بسر کر سکیں۔

سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ کیس کا اصل مقصد ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو ‘حقیقی تحفظ اور حقوق’ فراہم کرنا ہے، قانونی حقوق اُن لوگوں کو ملنے چاہئیں جو اس کے مستحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ سراؤں کے صحت کارڈ کیلئے نادرا میں خصوصی ڈیسک قائم

قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈر کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، اس ایکٹ کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔

گزشتہ ہفتے وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ‘اسلامی احکام کے منافی’ قرار دینے کے لیے چیلنج کردیا گیا تھا اور اس کے بعد متعدد افراد نے کیس میں فریق بننے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2018 میں نافذالعمل ہونے والے اس قانون کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف دائر کردہ درخواست میں پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور خواجہ سرا الماس بوبی نے استدعا کی تھی کہ درخواستوں پر سماعت کے دوران انہیں دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں