ایران نے حجاب کے بغیر ہوٹل پر ناشتہ کرنے والی خاتون کو گرفتار کرلیا

30 ستمبر 2022
حجاب کے بغیر ہوٹل پر کھانا کھانے والی خواتین کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی—فوٹو: دینا راد
حجاب کے بغیر ہوٹل پر کھانا کھانے والی خواتین کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی—فوٹو: دینا راد

ایران میں حراست میں خاتون کی ہلاکت کے بعد جاری احتجاج کے دوران پولیس نے حجاب کے بغیر ہوٹل میں کھانا کھانے والی ایک خاتون کو گرفتار کرلیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مہسا امینی کے قتل کے بعد مظاہروں کے دوران حجاب کے بغیر ایک مقامی ہوٹل میں کھانا کھانے والی خاتون کی تصویر وائرل ہوئی جنہیں بعد میں گرفتار کرلیا گیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تہران کے ایک روایتی ہوٹل میں دونیا راد نامی خاتون اپنی سہیلی کے ہمراہ ناشتہ کر رہی تھیں جبکہ دونوں خواتین کے سر پر حجاب نہیں تھا جس کو ایران کے ’اسلامی ڈریس کوڈ‘ کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کے والدین نے پولیس کے خلاف شکایت درج کرادی

سوشل میڈیا صارفین نے اس تصویر کو بڑے پیمانے پر شیئر کرتے ہوئے دونوں خواتین کو اسلامی جمہوریہ کی خواتین کے لیے نافذ سخت ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر تعریف کی۔

خیال رہے کہ مہسا امینی کو رواں ماہ ایران کی اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا، جس کے بعد وہ ہلاک ہوگئیں تھیں۔

دونیا راد کی بہن دینا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی بہن کی گرفتاری کے حوالے سے لکھا کہ ’ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر یہ تصویر نشر ہونے کے بعد حساس اداروں نے میری بہن دونیا راد سے رابطہ کرکے انہیں وضاحت دینے کا کہا‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’آج جہاں ان کو بلایا گیا تھا، وہاں پہنچنے پر انہیں بتایا گیا کہ ان کو گرفتار کیا گیا ہے اور چند گھنٹوں بعد دونیا راد نے مجھے فون کرکے اطلاع دی کہ انہیں ایون جیل کے وارڈ نمبر 209 میں رکھا گیا ہے جس کو مبینہ طور پر وزارتِ انٹیلی جنس چلاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا خاندان ان (دینا) کی صحت کے بارے میں بہت پریشان ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

ایران سے باہر فارسی میڈیا نے گزشتہ چند دنوں سے سول نافرمانی کے حوالے سے تصاویر کی نشاندہی کی ہے جہاں ایرانی خواتین کی سڑکوں پر گھومنے، شاپنگ کرتے اور ہوٹلوں میں جانے کی تصاویر شیئر کر رہی ہیں جن میں ان کو اسکارف پہنے بغیر دکھایا گیا ہے۔

امریکی شہریت یافتہ سرگرم کارکن اور صحافی امید میمرین نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ وہ صرف ناشتہ کرنے گئیں تھیں اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے، ایران میں حجاب کی پالیسی کتنی ظالمانہ ہے‘۔

سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے دونیا راد کے اقدامات کا موازنہ روزا پارکس سے کیا جو کہ امریکی سول حقوق کی کارکن ہیں جنہوں نے بسوں میں تفریق کے خلاف مزاحمت کی تھی۔

سماجی کارکنان نے کہا کہ معروف نغمہ نگار اور شاعر مونا بورزوئی کو بھی گرفتار کیا گیا تھا، جنہوں نے اپنی ایک ویڈیو شیئر کیا تھا، جس میں وہ ایک نظم پڑھ رہی تھیں کہ ’ہم یہ دھرتی تمہارے ہاتھوں سے واپس لیں گے‘۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایران مہسا امینی کی موت کے بعد ابھرنے والے مظاہروں کو دبانے کے لیے اپنے برسوں کے سب سے شدید کریک ڈاؤن کی زد میں ہے جہاں تقریباً دو درجن صحافیوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور ثقافتی شخصیات کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل

سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ سابق ایرانی فٹ بال کھلاڑی حسین مناحی کو بھی آج گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر مظاہروں کی حمایت کی تھی۔

حقوق گروپ آرٹیکل-19 اور ایران سے باہر فارسی زبان کے میڈیا نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے گلوکار شیروین حاجی پور کو بھی گرفتار کیا ہے، جن کا کلام ’فار‘ مظاہروں کے بارے میں ٹویٹس سے بنا اور انسٹاگرام پر وائرل ہو گیا تھا۔

گلوکار شیروین حاجی کا مشہور کلام جس کو لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں، جس پر صارفین نے تبصرے بھی کیے اور کہا کہ اس کلام نے ان کی آنکھوں میں آنسوں بھر دیے ہیں، تاہم اب وہ کلام گلوکار کے اکاؤنٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Oct 01, 2022 11:24am
رائ کا پہاڑ ۔ ہر ملک و معاشرے کی اپنی ثقافتی حدود ہوتے ہیں ، اور چند لوگ وہاں 'نیڈ فار اسپیڈ ' کھیلتے ہیں ۔ اور پھر قانون نے حرکت کرنا ہوتا ہے ۔