کابل خود کش دھماکا، ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی

01 اکتوبر 2022
افغانستان میں ہزارہ برادری پر ماضی میں بھی شناخت کی بنیاد پر خودکش حملے ہوتے رہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں ہزارہ برادری پر ماضی میں بھی شناخت کی بنیاد پر خودکش حملے ہوتے رہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ دارالحکومت کابل میں تعلیمی ادارے پر ہونے والے خود کش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے اپنے بیان میں کہا کہ کابل کے علاقے دشت برچی میں گزشتہ روز ہوئے خود کش دھماکے سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 35 اور زخمیوں کی تعداد 82 ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کابل کے مغربی علاقے دشت برچی کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک خود کش بمبار نے حملہ کردیا جہاں سیکڑوں طلبہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان کی تیار کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: کابل میں تعلیمی ادارے پر خودکش حملہ، 19 افراد جاں بحق

افغانستان میں ہزارہ برادری کی بھاری اکثریت رہتی ہے جہاں ماضی میں بھی شناخت کی بنیاد پر خودکش حملے ہوتے رہے ہیں۔

اس سے قبل کابل پولیس نے خودکش دھماکے کے بارے میں کہا تھا کہ حملے میں 20 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہوگئے ہیں، تاہم، کابل کے اعلیٰ تعلیمی مرکز پر حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے صوبہ قندوز کی مسجد میں دھماکا، 55 افراد جاں بحق

اس حملے کی ذمے داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی تھی لیکن ایک سال قبل داعش نے اسی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا دعویٰ کیا تھا، جس میں طلبہ سمیت 24 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

'حملوں میں شدت'

گزشتہ سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوا تھا اور تشدد میں نمایاں کمی آئی تھی لیکن نئے حکمرانوں کے دور میں حالیہ مہینوں میں سیکیورٹی صورت حال خراب ونا شروع ہوگئی ہے۔

افغانستان کے ہزارہ برادری چند دہائیوں سے حملوں کی زد میں رہی ہے اور انہوں نے 1996 سے 2001 کے دوران طالبان کے پہلے دور حکومت میں ان کے ساتھ نامناسب رویہ اپنانے کا الزام لگایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسی طرح کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔

طالبان کی دشمن تنظیم ’داعش‘ کے حملوں کا نشانہ بھی اکثر ہزارہ برادری ہی بنتی ہے اور ان کارروائیوں میں بچوں، خواتین اور اسکولوں پر بھبی حملوں سے گریز نہیں کیا جاتا۔

پچھلے سال طالبان کی اقتدار میں واپسی سے قبل دشت برچی میں اسکول کے قریب تین بم دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 85 افراد جاں بحق اور 300 کے قریب زخمی ہو گئے تھے، جن میں اکثریت طالبات کی تھی۔

مزید پڑھیں: افغانستان: قندھار کی امام بارگاہ میں دھماکا، 41 افراد جاں بحق

مئی 2020 میں شدت پسند تنظیم پر ایک ہسپتال کے زچہ وارڈ پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا جس میں ماؤں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

افغانستان میں تعلیم کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں جہاں حکمران طالبان نے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کردیے ہیں جبکہ طالبان لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے اعلانات بھی کرچکے ہیں، اسی طرح طالبان کی مخالف دہشت گرد تنظیم داعش بھی لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں