مظاہرین پر تشدد، ایران کے خلاف 'سخت اقدامات' کریں گے، امریکی صدر

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2022
امریکی صدر نے کہا واشنگٹن ایران کے ان تمام شہریوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنی بہادری سے دنیا کو متاثر کر رہے ہیں —فائل فوٹو: اے پی
امریکی صدر نے کہا واشنگٹن ایران کے ان تمام شہریوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنی بہادری سے دنیا کو متاثر کر رہے ہیں —فائل فوٹو: اے پی

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی موت پر غم و غصے کے باعث ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن پر امریکا، ایران کے خلاف مزید سخت اقدامات کرے گا۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کو ایران کی اخلاقی پولیس نے 22 سالہ مہسا امینی کو 'غیر موزوں لباس' کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران وہ کومہ میں جانے کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔

مہسا امینی کی موت پر اسلامی جمہوریہ ایران میں تین برسوں کے بعد احتجاجی لہروں میں بڑے پیمانے پر شدت آئی ہے جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے تہران میں یونیورسٹی طلبہ پر رات کے وقت کریک ڈاؤن کرنا شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں کشیدگی کے پیچھے امریکا اور اسرائیل ہیں، سپریم لیڈر

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ رواں ہفتے امریکا پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف مزید سخت اقدامات کرے گا، ہم تشدد میں ملوث ایرانی حکام کو جوابدہ ٹھہراتے رہیں گے اور ایرانیوں کے احتجاج کے حقوق کی حمایت کریں گے۔

جو بائیڈن نے مزید کہا کہ وہ مظاہرین پر شدید ظلم اور تشدد کی خبروں پر بہت زیادہ فکر مند ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ واشنگٹن، ایران کے ان تمام شہریوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنی بہادری سے دنیا کو متاثر کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے بیان میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ ایران کے خلاف مزید کن اقدامات پر غور کر رہے ہیں، جب کہ ایران پہلے ہی اپنے متنازع جوہری پروگرام کے باعث سخت امریکی معاشی پابندیوں کی زد میں ہے۔

مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کرین جین پیئر نے اپنے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا کہ ایران کے رویے سے پیدا ہونے والے مسائل 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں سے الگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا معاہدے کی بحالی کے لیے کوششیں اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک ہمیں یقین ہے کہ یہ امریکی قومی سلامتی کے مفادات سے متعلق ہے۔

ایران کا امریکا کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں پر منافقت کا الزام

دوسری جانب امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے ایران نے امریکا پر انسانی حقوق سے متعلق اس کی پالیسیوں پر 'منافقت' کا الزام لگایا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ جو بائیڈن کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ انسانی ہمدردی کے جذبات کے اظہار سے قبل اپنے ملک کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کے بارے میں تھوڑا سوچ لیں جب کہ اس منافقت اور دہرے رویے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک

ایرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر کو ایرانی قوم کے خلاف ان عائد کردہ متعدد پابندیوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے جو کسی بھی ملک کے خلاف عائد کرنا انسانیت کے خلاف جرم کی واضح مثال ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کی لہر کو بڑھکانے کا الزام دشمن ممالک امریکا اور اسرائیل پر عائد کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ ’میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ تنازعات اور غیر یقینی صورتحال امریکا اور قابض، جھوٹی صیہونی حکومت اور ان کے ایجنٹوں نے بیرونِ ملک بیٹھے کچھ غدار ایرانیوں کی مدد سے پیدا کی ہی۔‘

نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد پہلی بار عوامی خطاب میں ایران کے 83 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پولیس پر مجرموں کے خلاف اٹھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی پولیس پر حملہ کرتا ہے وہ لوگوں کو مجرموں، ٹھگوں، چوروں سے غیر محفوظ کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

انہوں نے کہا کہ ’نوجوان خاتون کی ہلاکت پر ہمیں دلی افسوس ہوا ہے مگر جس طرح کچھ لوگوں نے بغیر تفتیش اور ثبوت کے سڑکوں پر خوف و ہراس پیدا کیا، قرآن پاک کی بے حرمتی کی، پردہ دار خواتین کے چہروں سے نقاب اتارے، مساجد اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا وہ عمل بھی درست نہیں ہے۔‘

'ناقابل یقین ہمت'

تہران میں شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں طلبہ پر رات کی تاریکی میں کریک ڈاؤن نے لوگوں میں تشویش پیدا کردی ہے، جہاں مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پولیس نے سیکڑوں طلبہ کے خلاف اسٹیل پیلٹ گن اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

خبر رساں ایجنسی ’مہر‘ نے رپورٹ کیا کہ تشدد کے دوران طلبہ نے ’عورت، زندگی اور آزادی‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔

رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر سائنس محمد علی ذوالفضل صورتحال پر قابو پانے کی کوشش میں طلبہ کے پاس پہنچے۔

یہ بھی پڑھیں: دشمن ایران کو کمزور کرنے کے لیے احتجاج کو استعمال کررہے ہیں، خامنہ ای

اوسلو میں قائم ایران کے انسانی حقوق گروپ نے ویڈیوز شیئر کیں جن میں بظاہر موٹر سائیکلوں پر سوار ایرانی پولیس کو زیر زمین کار پارک سے بھاگتے ہوئے طلبہ کا پیچھا کرتے ہوئے دکھایا گیا جو ایسے گرفتار لوگوں کو اپنے ساتھ لے جارہے تھے جن کے سر کالے کپڑوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔

ایران ہیومن رائٹس نے تہران میٹرو اسٹیشن کی ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں ایک ہجوم کو ’خوف زدہ مت ہوں، ہم سب ساتھ ہیں‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ایران کی شریف یونیورسٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ برداشت کرنا مشکل ہے۔

وزیر خارجہ نے لکھا کہ ’ایرانیوں کی ہمت ناقابل یقین ہے جہاں حکومت کی وحشیانہ طاقت تعلیم اور آزادی کی طاقت سے واضح طور پر خوف کا اظہار ہے۔

ایران میں نیویارک کے قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ ان کو شریف یونیورسٹی اور تہران سے سامنے آنے والی ویڈیوز پر انتہائی تشویش ہے جہاں سے مظاہرین کو چہروں کو مکمل طور پر کپڑے میں ڈھانپ کر لے جایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثے کے خلاف ایرانی عوام سراپا احتجاج، خامنہ ای کے استعفے کا مطالبہ

رپورٹ کے مطابق مرکزی شہر اصفہان سمیت دیگر جامعات میں بھی مظاہروں کی خبریں سامنے آئیں جبکہ ٹوئٹر پر ایک طلبہ گروپ کی جانب سے غیر مصدقہ اطلاعات میں کہا گیا کہ دارالحکومت میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نے اعلان کیا ہے کہ حالیہ کشیدگی اور طلبہ کو تحفظ کی ضرورت کے مطابق پیر سے تمام کلاسز ورچوئلی ہوں گی۔

ایران نے ملک بھر میں جاری مظاہروں کی پشت پناہی کا الزام بیرونی طاقتوں پر عائد کیا ہے اور گزشتہ ہفتے فرانس، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز اور پولینڈ کے 9 غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انٹرنیٹ کی بندش اور واٹس ایپ، انسٹاگرام اور دیگر آن لائن سروسز پر پابندی کے باوجود ہلاکتوں کی تعداد کا تخمینہ لگانے والی انسانی حقوق کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ مہسا ایمنی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک مظاہروں کے دوران 92 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سے قبل کہا تھا کہ انہوں نے 53 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جہاں گزشتہ ہفتے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’فارس‘ نے کہا تھا کہ مظاہروں کے دوران کشیدگی میں 60 افراد کے قریب لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

کردستان صوبے کے ماریوان میں فسادات سے نمٹنے والی پولیس کے سربراہ کشیدگی کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے جو بعد ازاں زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے، جو کہ 16 ستمبر کے بعد سیکیورٹی فورسز میں 12ویں ہلاکت رپورٹ تھی۔

ایران ہیومن رائٹس نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 30 ستمبر کو ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں کشیدگی کے دوران 42 افراد ہلاک ہوگئے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا کہ بلوچستان صوبے میں یہ تنازعات اس وقت پھیلے جب ایک پولیس سربراہ پر نوعمر بچی کا ریپ کرنے کا الزام لگا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں