لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

اگلے ہفتے اس وقت تک ہمیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ آرمی چیف کے طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ کا جانشین کون ہوگا؟ تاہم پاکستان کی معیشت اور استحکام پر موجود سوالیہ نشان برقرار رہیں گے۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس موضوع پر بے تحاشہ ٹی وی پروگرام، وی لاگز اور اس طرح کا دوسرے سوشل میڈیا مواد موجود ہے۔ یہ زیادہ تر قیاس آرائیوں پر مبنی ہے جسے بعض اوقات تجزیے اور کبھی کبھی خبر کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ وہ وزارتِ دفاع کے تحت ہونے والی تقرری کی بہت زیادہ میڈیا کوریج سے تنگ آگئے ہیں۔ انہوں نے ایسے تمام لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جو کوئی قابلِ ذکر خبر نہ ہونے کے باوجود اس معاملے پر بڑھ چڑھ کر بات کررہے تھے۔

اگرچہ ہم ان سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ یہاں معاملات اتنے سادہ کیوں نہیں ہوتے۔ آخر یہ بھی وزارتِ دفاع کے ماتحت ایک عہدے پر تقرری ہی تو ہے۔ جو بھی سنجیدگی سے ایسا سوچتا ہے، وہ اس کا ذمہ دار خود ہے۔

راقم اپنی سادگی میں ایک اور بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ جو فرد بھی آرمی چیف بنے گا وہ بھی آنے والوں کی ہی طرح ہوگا اور یہ سب اپنے ادارے کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں، باقی تمام چیزیں ثانوی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔

بلاشبہ ہمارے سامنے ضیا الحق، پرویز مشرف اور پھر مزید قریب کی بھی مثالیں موجود ہیں کہ وہ انہی لوگوں کے خلاف ہوگئے جنہوں نے ان کا تقرر کیا تھا یا پھر جو ان کے محسن تھے۔ اس کا تعلق ادارے کے مفاد سے زیادہ ان کے ذاتی عزائم سے ہے۔

لیکن ہمیں جہانگیر کرامت کی مثال نہیں بھولنی چاہیے۔ جب وہ 1990ء کی دہائی کے آخر میں نواز شریف کی سول حکومت کے ساتھ تنازع کا شکار ہوئے تو انہوں نے ملک کے طاقتور ترین عہدے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود آج بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے چیف آف جنرل اسٹاف اور دیگر سینیئر معاونین کے مشورے پر توجہ نہیں دی جو انہیں اپنے عہدے پر رہنے اور وزیرِاعظم اور ان کی حکومت کا ’انتظام‘ کرنے کا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے جو کیا وہ ان کے ادارے کے لیے اور خود ان کے لیے بھی بہتر تھا۔

پھر ایک وحید کاکڑ بھی تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1993ء میں سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحٰق خان کا فیصلہ کالعدم کرتے ہوئے نواز شریف کی حکومت کو بحال کیا تو وحید کاکڑ نے پس پردہ نواز شریف پر دباؤ ڈلوایا کہ وہ اسلمبلیاں توڑ دیں جس سے نئے انتخابات کی راہ ہوار ہو اور پھر صدر سے بھی استعفیٰ لیا۔

غلام اسحٰق خان نے بدنام زمانہ 8ویں ترمیم کے ذریعے حکومت کو گھر بھیج دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی تو صدر اور وزیرِاعظم میں ایک ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا جس سے ریاستی امور متاثر ہونے لگے۔

وہ بہت ہی غیر معمولی دور تھا کیونکہ ڈکٹیٹر ضیا الحق نے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور 8ویں ترمیم نے ملک کی پارلیمانی جمہوریت کو تباہ کردیا۔ وحید کاکڑ کے اقدام صحیح ہوں یا غلط لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ انہوں نے ذاتی مفاد کے لیے یہ کام نہیں کیا تھا۔ بعد ازاں جب وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو نے انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے رد کردیا اور وقت پر ریٹائر ہوکر گھر چلے گئے۔

تاریخ کا معمولی سا بھی علم رکھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ جن لوگوں نے واقعی قومی مفادات میں کام کیا اور جنہوں نے قومی مفاد کے نام پر ذاتی عزائم پورے کیے ان دونوں کا ملک پر کیا اثر پڑا، چاہے فوج کے کمانڈ اسٹرکچر کے باعث چیف کے ارد گرد موجود سینیئر کمانڈر چیف کے فیصلے سے متفق ہوئے ہوں یا نہیں۔

حالات و واقعات کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی یہ بتاسکتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنا کام پروفیشنل طریقے سے کیا اور توسیع کی پیشکش یا کسی تنازع میں پڑنے کی صورت میں عہدہ چھوڑ گئے، انہوں نے اس ملک، اس کی معیشت اور اس کے استحکام کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

فوج کا نیا سربراہ 2 میں سے ایک کام کرسکتا ہے۔ وہ صرف پیشہ ورانہ معاملات پر توجہ مرکوز کرکے تاریخ اور اپنے پیشرو سربراہان میں سے اکثر کی روایت کو توڑسکتا ہے یا پھر فوج کی باگ ڈور سنبھالنے کے چند ماہ بعد یہ سوچ کر اپنے آپ کو دھوکا دے سکتا ہے کہ آئین کے برخلاف ریاستی معاملات میں اس کا وسیع تر کردار قومی مفاد میں ہوگا۔

فوج کے نئے سربراہ کے گرد سویلین سمیت ایسے کئی لوگ ہوں گے جو انہیں اس دوسرے انتخاب کی جانب دھکیلیں گے۔ بدقسمتی سے جڑواں شہروں میں طاقت کے مراکز میں موجود افراد کی بڑی تعداد یہی چاہتی ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی: طاقت کے مراکز میں بیٹھے لوگ کیا چاہیں گے؟

ممکن ہے کہ ملک کو بیرونی خطرات سے بچائے رکھنے اور دوبارہ سر اٹھاتی دہشتگردی کا قلع قمع کرنے سے متعلق تھکا دینے والی ذمہ داری کی وجہ سے یادداشت کو کھنگالنا اور تاریخ کی کتابیں پڑھنا مشکل کام لگے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تب بھی ماضی کے چند برسوں کی مثالیں دیگر عزائم سے روکے رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

ایک وزیرِاعظم نے ایسا کام کرنے کی تجویز کی جو ملک کے مفاد میں تھا (پھر وہ 5 سال بعد کیا بھی گیا)، شاید وہی یہ موقع تھا جب وہ منتخب وزیرِاعظم ناپسندیدہ قرار پائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا خمیازہ آج تک بھگتا جارہا ہے۔

اس بارے میں بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پھر نتیجے کے طور پر ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہوئی اور سیاسی استحکام ذاتی عزائم کی نظر ہوگیا۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی عوام کی حقیقی ضروریات کی جانب بھی توجہ کی جائے گی۔

کسی بھی فرد کو اسی صورت اعلیٰ عہدہ قبول کرنا چاہیے جب اسے لگے کہ اس میں ایسی کوئی صلاحیت موجود ہے جس سے وہ ان غریب عوام کی مدد کرسکتا ہے جن کے بچے خوراک اور تعلیم سے محروم ہیں اور جنہیں صحت کی مناسب سہولیات بھی میسر نہیں ہیں، ورنہ ان سارے بینڈ باجوں کا کوئی فائدہ نہیں۔


یہ مضمون 20 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں