اشیائے خورونوش کی سرکاری اور ریٹیل قیمتوں میں بڑے فرق سے شہری پریشان

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2022
چیئرمین کراچی ہول سیلرز اینڈ گروسرز ایسوسی ایشن نے کہا سرکاری افسران مراعات لے رہے ہیں، صارفین کے مفاد کا تحفظ نہیں کر رہے — فوٹو: وائٹ اسٹار
چیئرمین کراچی ہول سیلرز اینڈ گروسرز ایسوسی ایشن نے کہا سرکاری افسران مراعات لے رہے ہیں، صارفین کے مفاد کا تحفظ نہیں کر رہے — فوٹو: وائٹ اسٹار

پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار شہری سبزیوں اور اشیائے ضروریہ کی سرکاری اور ریٹیل قیمتوں میں پائے جانے والے بڑے فرق پر بحث و تکرار کرتے نظر آتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگر کمشنر کراچی کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ سبزیوں کے یومیہ ہول سیل اور ریٹیل ریٹس کو ایک معیار قرار دیا جائے جب کہ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ فہرست کو ریٹیلرز اور ہول سیلرز دونوں کی جانب سے غیر حقیقی قرار دیا جاچکا ہے، تو بھی سپر ہائی وے پر واقع سبزی منڈی کے ہول سیل کے نرخوں اور شہر کے مختلف علاقوں کی ریٹیل مارکیٹوں میں رائج قیمتوں میں بہت بڑا اور واضح فرق نظر آتا ہے۔

شہر میں ایک بھی ریٹیلر اپنی دکان پر سرکاری پرائس لسٹ نہیں رکھتا جس کا مطلب ہے کہ سرکاری لسٹ صرف کمشنر کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

یہاں یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ شہر میں پرائس لسٹ کی تقسیم اور اس پر عمل درآمد جانچنے کے لیے کوئی طریقہ کار نہ ہونے کے باوجود شہری حکومت وقتاً فوقتاً ریٹیلر کی جانب سے کی جانے والی منافع خوری کو کنٹرول کرنے کا کریڈٹ لیتی ہے۔

اگر کوئی خریدار اپنے اسمارٹ فون پر پرائس لسٹ کسی ریٹیلر کو دکھاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ کمشنر کے ریٹ مارکیٹ میں نافذ نہیں ہیں اور اس ریٹ پر فروخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ریٹیلرز کا استدلال ہے کہ کمشنر کراچی اور ان کی ٹیم پہلے ان نرخوں پر سبزیوں کی دستیابی کو یقینی بنائیں اور پھر ہمیں زائد قیمتوں پر فروخت کرنے پر پکڑیں۔

ٹھیلوں پر سبزی بیچنے والے دکانداروں سے زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں جب کہ وہ قیمتوں میں صارفین کی نقل و حرکت کی لاگت کو شامل کرتے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں مختلف علاقوں میں رہنے والے صارفین سبزیوں کے نرخوں پر جھگڑتے نظر آتے ہیں۔

ایک صارف کا کہنا ہے کہ اس نے اچھے معیار کی پیاز 200 روپے فی کلو خریدی ہے جب کہ دوسرے صارفین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہی پیاز 180 روپے فی کلو کے حساب سے خریدی۔

تاہم حکومت کی جانب سے پیاز کا ہول سیل ریٹ 140 روپے فی کلو ہے اور ریٹیل ریٹ 143 روپے فی کلو ہے۔

ایک گاہک کا کہنا تھا کہ اس نے پرانا آلو 70 سے 80 روپے فی کلو خریدا جب کہ ایک اور خریدار کا کہنا تھا کہ اس نے 60 روپے فی کلو کے حساب سے خریدا۔

آلو کا سرکاری ہول سیل ریٹ 43 روپے اور ریٹیل ریٹ 46 روپے فی کلو ہے، نیا آلو 120 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے جب کہ اس کے سرکاری ہول سیل اور ریٹیل ریٹ 83 روپے اور 86 روپے فی کلو ہیں جب کہ کچھ خریدار 130 سے 140 روپے فی کلو تک ادا کرتے ہیں۔

قیمتوں میں اس بڑے اور واضح فرق کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ کمشنر آفس مارکیٹ کی حقیقتوں کو جانچنے میں دلچسپی نہیں لیتا۔

قیمتوں کو چیک کرنے کے لیے مقرر کیے گئے سرکاری افسران کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے ڈیلرز، صارفین کو لوٹنے کی جانب راغب ہوتے ہیں۔

صارفین کے لیے کم قیمتوں میں اچھے معیار کی اشیا تلاش کرنا بھی ایک مشکل کام ہے جب کہ ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ 2 سے 3 اقسام کی سبزیاں مختلف قیمتوں پر مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔

کراچی ہول سیلرز اینڈ گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رؤف ابراہیم نے کہا کہ کمشنر کی جانب سے روزانہ گروسری پرائس لسٹ کا اجرا گزشتہ 3 برسوں سے معطل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آفیشل پرائس لسٹ کی غیر موجودگی میں آپ کے پاس زائد قیمت وصول کرنے پر ریٹیلر پر جرمانہ عائد کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری افسران صرف تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، صارفین کے مفاد کا تحفظ نہیں کر رہے، کمشنر کو ہول سیلرز اور ریٹیلرز کے ساتھ میٹنگ کے بعد ہر 15 روز بعد پرائس لسٹ جاری کرنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں