اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کڑک چائے مل جاتی ہے اس لیے یہاں صبح کا آغاز کڑک چائے سے ہی ہوتا ہے۔ یہاں میڈیا سینٹر میں موجود مکڈونلڈ میں چائے دستیاب ہے جو میرے لیے بہت اچھا ہے کیونکہ مجھے کافی پسند نہیں۔ تو میرے لیے دن کا آغاز کڑک چائے سے ہی ہوتا ہے۔

میڈیا سینٹر میں ملنے والی چائے کا معیار ڈھابے والی چائے کی طرح کا تو نہیں ہوتا لیکن پھر بھی میں فائدے میں ہی ہوں۔ دیگر ورلڈ کپ کور کرنے کے دوران میں صبح میڈیا سینٹر پہنچ کر ایسپریسو شاٹس پر گزارا کرتا تھا لیکن یہاں میں چائے پی رہا ہوں۔

میڈیا سینٹر کے مکڈونلڈ میں ملنے والی چائے— تصویر: لکھاری
میڈیا سینٹر کے مکڈونلڈ میں ملنے والی چائے— تصویر: لکھاری

یہ ورلڈ کپ ویسے بھی گھر کا ہی ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں موجود والنٹیئرز، سیکیورٹی گارڈز سب ہی اردو بولتے ہیں، اکثر یا تو پاکستانی ہیں یا پھر بھارتی۔ شاید یہ میرا پہلا ورلڈ کپ ہے جہاں میں لوگوں سے اردو میں بات کررہا ہوں۔ اسی وجہ سے یہ ورلڈ کپ بہت مختلف ہے اور آپ کو گھر جیسا محسوس ہوتا ہے۔

لیکن دیکھا جائے تو میں نے جو برازیل اور روس کے ورلڈ کپ کور کیے ہیں ان کی نسبت یہاں اس طرح کا ایڈونچر نہیں ہے۔ وہاں آپ کو ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہوتا تھا، ہوٹلوں میں چیک اِن اور چیک آؤٹ کرنا ہوتا تھا، فلائٹ پکڑنی ہوتی تھی اور کبھی کبھی فلائٹ چھوٹ بھی جاتی تھی اور آپ بھاگتے بھاگتےاسٹیڈیم پہنچتے تھے۔

قطر میں ایسا نہیں ہے، یہاں آپ دن میں ایک سے زائد میچ بھی آسانی سے کور کرسکتے ہیں۔ یہاں ہر میچ کے لیے ٹرانسپورٹ دستیاب ہے اور میڈیا شٹل کے راستے بھی عام ٹریفک کے لیے بند ہوتے ہیں جس وجہ سے آپ بغیر کسی مشکل کے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں نظام بہت اچھا ہے لیکن جو مزہ بھاگ دوڑ میں آتا ہے وہ کم ہے۔ یہ ایک طرح سے اچھا بھی ہے کیونکہ پہلے ہم ایک دن میں ایک ہی میچ کور کرسکتے تھے اور اب ایک سے زیادہ میچ کور کرلیتے ہیں۔

کل ایک بڑا میچ تھا جو جرمنی اور جاپان کے درمیان کھیلا گیا اور میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نے جرمنی بمقابلہ جاپان اور ارجنٹینا بمقابلہ سعودی عرب میچ دیکھا۔ ایسے میچ تاریخ میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔ کسی کو امید نہیں تھی جرمنی کو شکست ہوگی لیکن ایسا ہوا اور جاپان کی ٹیم جیت گئی۔ اسٹیڈیم میں جاپانی فین بھی بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔

جاپان کا میچ کور کرنے کے بعد ہم پھر میڈیا شٹل میں بیٹھے اور بیلجیئم اور کینیڈا کے میچ میں پہنچے۔ اس میچ کے لیے بھی اسٹیڈیم میں بہت زبردست ماحول تھا اور کینیڈین شائقین بڑی تعداد میں تھے جو بہت شور مچا رہے تھے۔ آپ کو ایسا میچ دیکھنا اچھا لگتا ہے جہاں شور اور ہنگامہ ہو اور بطور صحافی آپ کو اچھی فٹبال دیکھنے کا بھی دل چاہتا ہے۔ اس میچ میں بیلجیئم کو خلافِ توقع فتح حاصل ہوئی۔

یہاں فیفا نے ’اوویسس‘ نامی اوپن ایئر ریسٹورنٹ بنایا ہوا ہے۔ اب چونکہ یہاں کا موسم بھی بہتر ہوگیا ہے تو آپ یہاں شام کا وقت اچھا گزار سکتے ہیں۔ قطر نے یہ ایونٹ بہت حد تک اولمپکس طرز کا کروایا ہے اور اس کے لیے انہوں نے انتظامات بھی ویسے ہی کیے ہیں مثلاً آپ ایک میڈیا سینٹر میں آئیں جہاں سے آپ کہیں بھی جاسکتے ہیں۔

میں اس حوالے سے بھی خوش قسمت ہوں کہ مجھے شہر کے وسط میں اور میڈیا سینٹر کے قریب ہی رہائش مل گئی ہے تو میرے لیے میڈیا سینٹر آنا اور واپس جانا بہت آسان ہے۔ اگر میں بس سے نہیں آسکتا تو پھر میٹرو سے چلا جاتا ہوں۔ میرے کئی صحافی دوست بہت دُور دُور رہ رہے ہیں اور انہیں سفر کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں