اسمٰعیل تارا بھی چلے گئے: یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نے رُلا دیا!

پاکستان میں ریڈیو، تھیٹر، ٹیلی وژن اور فلم کی تاریخ میں ایک ایسا پہلو، جس کے بغیر آج بھی کوئی کہانی مکمل نہیں سمجھی جاتی، وہ مزاح کا پہلو ہے۔ ہر داستان اور کہانی میں مزاحیہ کردار ضروری سمجھا گیا ہے۔

پاکستانی شوبز کے منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالی جائے، تو ایسے کرداروں کو امر کرنے والے اداکاروں کی ایک جامع فہرست ہمارے سامنے ہے، جن میں سے ایک معتبر نام ’اسمٰعیل تارا‘ کا ہے، جو اب ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ وہ ہمیشہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا کام کرتے رہے، اور ان کی رحلت پہلا موقع ہے جب ان کا نام سن کر مداح سوگوار ہیں اور اشکبار بھی، کیونکہ اسمٰعیل تارا خوشی اور مسکراہٹ کا دوسرا نام تھے۔

پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں مزاحیہ اداکاروں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے، تو ان میں پہلا نمایاں نام پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ میں کام کرنے والے اداکار ’نذر‘ کا ہے۔ اس کے بعد بالترتیب شہرت پانے والے مزاحیہ اداکاروں میں لہری، رنگیلا، منور ظریف، علی اعجاز، البیلا، خالد نظامی اور دیگر ہیں۔

ریڈیو میں ہی کام کرنے والے اداکاروں کی اکثریت نے فلموں کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن میں بھی کام کیا، جن میں رفیع خاور، اختر شاہ خان جیدی، خواجہ اکمل، بہروز سبزواری، عرفان کھوسٹ، بشری انصاری، معین اختر شامل ہیں۔

    اسمٰعیل تارا خوشی اور مسکراہٹ کا دوسرا نام تھے
اسمٰعیل تارا خوشی اور مسکراہٹ کا دوسرا نام تھے

اس منظرنامے پر پی ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ سے جو کامیڈی کی دنیا میں ایک نیا دور شروع ہوا، اس کے اثرات پاکستانی شوبز پر دیرپا ہوئے۔ اس سے شہرت پانے والے اداکاروں میں سرِفہرست زیبا شہناز، ماجد جہانگیر، اشرف خان اور اسمٰعیل تارا تھے۔

پاکستانی تھیٹر کے شعبے میں عمر شریف سے لے کر امان اللہ اور سہیل احمد تک کامیڈی کے لیے خدمات فراہم کرنے والے اداکاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جن کو اس شعبے میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

ذاتی زندگی

اسمٰعیل تارا کی پیدائش کا سال 1949ء ہے، جبکہ رواں برس 2022ء میں رحلت ہوئی۔ وہ 4 دہائیوں تک شوبز کے شعبے میں ناظرین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔

انہوں نے اپنی اداکاری کی ابتدا بچپن میں گلی محلوں میں ہونے والے ناٹکوں سے کی اور تقریباتی نوعیت کی سرگرمیوں میں مزاحیہ اداکاری کرتے کرتے سنجیدگی سے اس شعبے میں داخل ہوگئے۔

1964ء میں اسٹیج سے کام کرنے کا آغاز کیا۔ وہ نو عمری سے ہی خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کے ماہر تھے، نقالی بہت اچھی کرتے تھے اور اسی خوبی کی وجہ سے وہ اپنے حلقہ احباب اور آگے چل کر شوبز میں جلدی نمایاں ہوگئے۔

ان کی حقیقی شہرت 1979ء سے 1981ء تک جاری رہنے والے، پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ سے ہوئی، جس کے پروڈیوسر شعیب منصور ہوا کرتے تھے۔ ہرچند کہ یہ پروگرام امریکی کامیڈی شو ’سیٹر ڈے نائٹ لائیو‘ سے متاثر تھا، لیکن شاندار اسکرپٹ، بہترین ہدایت کاری اور عمدہ اداکاری کے ذریعے یہ پروگرام پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ میں رجحان ساز ثابت ہوا۔

اس مزاحیہ خاکوں پر مبنی پروگرام میں وہ اپنے ساتھی اداکاروں ماجد جہانگیر، زیبا شہناز اور دیگر فنکاروں کے ساتھ مختلف کرداروں کو نبھایا کرتے اور بہت ساری شخصیات کی نقالی بھی کرتے۔ وہ ایسے مزاح کو پیش کرتے جس میں تفریح کے ساتھ ساتھ کوئی سبق بھی شامل ہوتا۔

یہ پروگرام ہرکس و ناکس میں مقبول تھا۔ اس مقبول پروگرام کو معروف ڈراما نگار انور مقصود لکھا کرتے تھے۔ پھر جب ہدایت کار سے کسی بات پر اختلاف کی وجہ سے وہ اس سے علیحدہ ہوگئے، تو کچھ عرصہ اسمٰعیل تارا نے اس پروگرام کے اسکرپٹ بھی لکھے، لیکن بہت جلد اپنے اصل کام یعنی اداکاری کی طرف لوٹ آئے۔

ان کا حقیقی اور مکمل نام اسمٰعیل مرچنٹ تھا۔ ان کو خاندان کی طرف سے شوبز میں آنے کے لیے مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی، لیکن وہ طے کرچکے تھے کہ وہ ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر ہی کام کریں گے۔

ایک بار ان کے بھائی نے ان کو گنجا کروا دیا تاکہ وہ اداکاری سے توبہ کرلیں، مگر ان کا ارادہ متزلل نہ ہوا۔ اس اداکاری کے لیے انہوں نے کس طرح استقامت دکھائی اس کو بتانے کے لیے یہی ایک قصہ کافی ہوگا کہ ایک موقع پر، جب وہ ایک اسٹیج ڈرامے میں کام کر رہے تھے، تو ان کو اطلاع دی گئی کہ ان کے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے، اس خبر کو سننے کے بعد انہوں نے خود پر قابو رکھا، اس چلتے ہوئے ڈرامے میں اپنا کام ختم کیا اور پھر بیٹے کی تدفین کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ واقعہ ان کی اپنے کام سے لگن اور استقامت کی گواہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے کام کو محبت سے کرتے رہے۔

کچھ عرصہ پہلے 2019ء میں جب پاکستانی اداکارہ مہوش حیات کو سرکاری اعزاز سے نوازا گیا، تو انہوں نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس کو جہاں شوبز کے ایک طبقے نے سراہا، تو دوسرے طبقے نے تنقید بھی کی۔ وہ تمام تر مخالفت کے باوجود حق اور سچ بات کرنے کے حامی تھے، اسی لیے ہمیشہ نڈر اور بے خوف ہوکر اپنی رائے کا اظہار کرتے، یہ خوبی ان کی شخصیت کو مزید نکھارتی تھی۔

پیشہ ورانہ مصروفیات

اسمٰعیل تارا نے 80ء کی دہائی کے پاکستانی ٹیلی وژن کے پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ سے شہرت پائی۔ انہوں نے اپنے ہم عصر اداکار ماجد جہانگیر کے ساتھ مل کر، بہاری لہجے میں بات کرنے والے منوا اور ببوا کے کرداروں میں یادگار اداکاری کی جس کے سبب اس اداکار جوڑی کو بہت شہرت ملی۔

اسی طرح ساتھی اداکارہ زیبا شہناز کے ساتھ بھی شاندار کام کیا۔ پنجابی فلموں کے معروف اداکار سلطان راہی کی نقالی سے انہوں نے مداحوں کے دل جیت لیے۔ ان کے کیے ہوئے اس کام کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے ایک مزاحیہ پروگرام ’لیاری کنگ لائیو‘ میں بھی عمدہ اداکاری کی۔ یہ پروگرام بھی ایک امریکی ٹاک شو کی مزاحیہ نقالی تھا، جس میں انہوں نے مزاح کے انداز میں حقیقی رنگ بھرے۔ اس میں ان کے چند یادگار پروگراموں میں لالو پرساد، ڈریکولا اور انارکلی کو بہت پسند کیا گیا۔

اس کے علاوہ وہ نجی چینلز کے مختلف ڈراموں میں بھی تاحیات کام کرتے رہے، جن میں ’ربر بینڈ‘، ’یہ زندگی ہے‘، ’پاک ولا‘، ’دہلی کالونی‘، ’اورنگی ٹاؤن کی انوری‘، ’ماموں‘، ’جن کی آئے گی بارات‘، ’مرچیاں‘، ’نمک پارے‘، ’برفی لڈو‘، ’بھائی بھائی‘، ’وہ پاگل سی‘ اور ’انگنا‘ سمیت دیگر ڈرامے شامل ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک ڈرامے میں امریکی گلوکار مائیکل جیکسن کے گانے پر جو پرفارمنس دی، ناظرین نے اس پر تعریف و توصیف کے ڈونگے برسا دیے۔ ان کو اس رقص پر بہت زیادہ سراہا گیا۔

اسمٰعیل تارا نے ’نادانیاں‘ اور ’بلبلے‘ جیسے چند ایک مقبول ڈراموں میں مختصر کردار بھی نبھائے۔ ان کے اسٹیج ڈرامے ’سونے کی چڑیا‘ کو بہت مقبولیت ملی۔ عمر شریف کے ڈرامے ’مسٹر چارلی ان کراچی‘ کے علاوہ لاہور میں بھی ایک یادگار اسٹیج پلے کیا، جبکہ امانت چن اور سجن عباس کے ساتھ بھی اسٹیج کی یادگار پرفارمنس دی۔

وہ ٹیلی وژن کے ساتھ ساتھ فلم کے شعبے میں بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے درجن بھر سے زائد فلموں میں کام کیا، جن میں ’ہاتھی میرے ساتھی‘، ’آخری مجرا‘، ’منڈا بگڑا جائے‘، ’چیف صاحب‘، ’ہم کسی سے کم نہیں‘، ’جان جان پاکستان‘، ’راجو‘، ’کبھی ہاں کبھی ناں‘، ’مجھے جینے دو‘، ’دیواریں‘، ’مجھے چاند چاہیے‘، ’یہ دل آپ کا ہوا‘، ’کھلے آسمان کے نیچے‘، ’جوانی پھر نہیں آنی‘، ’سوال سات سو کروڑ ڈالرز‘ کا، ’جیک پاٹ‘ اور ’ہلا گلا‘ شامل ہیں۔

انہوں نے جاوید شیخ کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں میں کافی کام کیا جبکہ ان کی آخری پاکستانی فلم ’ریڈی اسٹیڈی نو‘ تھی جو 2019ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

اس سے پہلے ریلیز ہونے والی فلموں ’میں ہوں شاہد آفریدی‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی‘ میں بھی ان کے کام کو بہت پسند کیا گیا۔ انہوں نے ایک کارٹون فلم ’ڈونکی راجا‘ میں چاچا کے کردار کے لیے اپنی آواز بھی فراہم کی۔ ان کو 4 نگار ایوارڈز، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سمیت کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

حرف آخر

اسمٰعیل تارا کی زندگی فنکار برادری کے لیے ایک مثال ہے۔ انہوں نے اداکاری کے شعبے میں اپنے شوق کی تکمیل تو کی، مگر زندگی بسر کرنے کے لیے جامع اور عملی منصوبہ تشکیل دیا، جس کے تحت ذاتی کاروبار کیے، اولاد کی تعلیم اور تربیت کی تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں اور بڑھاپے میں کسی سے اپیل نہ کرنی پڑے اور کٹھن وقت کو اپنے وسائل سے گزار سکیں اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے۔

یہی ان کی دُوراندیشی اور ذہانت بھری شخصیت کی علامت ہے، اس کے باوجود وہ اداکاری کے شعبے میں بھی کام کرتے رہے، کم لیکن معیاری کام کیا۔ پاکستانی شوبز میں کامیڈی کا ایک سنہری باب بند ہوگیا۔ ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی، ان کے ادا کیے ہوئے کردار، آئندہ بھی چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہیں گے۔