اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کل کا دن مختلف تھا۔ مجھے کل پہلے گھانا اور جنوبی کوریا کا میچ کور کرنا تھا۔ میچ چونکہ قطر کے وقت کے مطابق 4 بجے تھا اس لیے ہم نے سوچا کہ ہم وقت پر پہنچ ہی جائیں گے۔

اس میچ میں دلچسپی تو کم تھی لیکن بطور صحافی میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ ایشیا کی ٹیموں کے میچ کور کروں۔ یہ میچ دیکھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے یوروگوئے اور پرتگال کا میچ دیکھنا تھا کیونکہ یہ دونوں ٹیمیں بھی گروپ ایچ کی ہی ہیں۔

2018ء کے روس میں منعقد ہونے والے عالمی کپ میں یوروگوئے اور پرتگال کا میچ میرے لیے کافی دلچسپ تجربہ رہا تھا۔ یہ وہی میچ تھا جس میں یوروگوئے کے ایڈنسن کاوانی نے 2 گولز اسکور کرکے کرسٹیانو رونالڈو کا ورلڈ کپ جیتنے کا خواب توڑ دیا تھا۔ پرتگال اس میچ کے بعد ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی تھی۔

چونکہ کل برازیل کا بھی میچ تھا اس لیے میرے کئی دوست برازیل کا میچ دیکھنے جا رہے تھے جبکہ مجھے یوروگوئے بمقابلہ پرتگال دیکھنا تھا۔

2 بجے میں میڈیا سینٹر پہنچا اور کیمرون اور سربیا کا میچ میں نے یہیں دیکھا۔ یہ میچ 3-3 سے برابر رہا۔ جب میں یہ میچ دیکھ رہا تھا تو میں نے سوچا کہ جنوبی کوریا اور گھانا کا میچ جو میں کور کروں گا، کاش وہ بھی ایسا ہی ہو۔ اور کبھی کبھی آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہو بھی جاتا ہے۔

جنوبی کوریا اور گھانا کا میچ نہایت دلچسپ تھا۔ 2-3 سے یہ میچ گھانا جیت گیا اور اس میچ میں اسٹیڈیم کا ماحول بہت بہترین تھا اور وہاں بیٹھ کر میچ دیکھنے میں کافی مزا آیا۔

یوروگوئے اور پرتگال کے میچ کے دوران— تصویر: لکھاری
یوروگوئے اور پرتگال کے میچ کے دوران— تصویر: لکھاری

جیسے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ فیفا میڈیا کے لیے شٹل چلواتا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان شٹلز کے ڈرائیورز کو دوسرے اسٹیڈیمز کا راستہ ہی معلوم نہیں ہوتا اور یہیں سے مسائل شروع ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے ڈرائیور کو اسٹیڈیم کا راستہ ہی نہیں معلوم ہو تو آپ مطلوبہ وقت پر اسٹیڈیم کیسے پہنچیں گے۔

کل بھی یہی ہوا کہ ہمارے بس ڈرائیور کو اسٹیڈیم کا راستہ معلوم نہیں تھا۔ وہ سب گوگل میپس کے ذریعے چلتے ہیں اور انہیں اسٹیڈیم کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔ تو جب ہمارے ڈرائیور نے بس ایک جگہ ٹریفک میں پھنسادی تو پھر اس نے اپنے سپروائزر کو فون کیا۔ کیونکہ ہم پاکستانی اور ہندوستانی صحافیوں کو اردو اور ہندی سمجھ آجاتی ہے تو ہمیں ڈرائیور کی باتوں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے راستہ معلوم نہیں۔ لیکن ہم کسی طرح وقت پر اسٹیڈیم پہنچ ہی گئے۔

جب ڈرائیور نے بس ٹریفک میں پھنسادی— تصویر: لکھاری
جب ڈرائیور نے بس ٹریفک میں پھنسادی— تصویر: لکھاری

میچ اچھا رہا، ابتدا میں تو کھیل نسبتاً سست تھا لیکن جب پہلا گول ہوا تو میچ میں مزہ آیا۔ میچ ختم ہونے کے بعد میں مکسڈ زون میں کھلاڑیوں کے انٹرویو کررہا تھا کہ میرے دوست سدھارتھ صاحب کا فون آیا کہ ہم میڈیا سینٹر میں ہیں تو آؤ کھانا کھانے چلتے ہیں۔

دوحہ میں رات 3 بجے سب بند ہوجاتا ہے۔ ماضی کے ورلڈ کپس میں یہ ہوتا تھا کہ اگر ہم رات دیر سے بھی فارغ ہوتے تھے تو کھانے کے لیے باآسانی کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا۔

یہاں قطر میں بھی ہم ایسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کھانے کی تلاش میں گھومتے ہوئے ہم ڈاؤن ٹاؤن میں اترے لیکن وہاں سب بند ہوچکا تھا۔ پھر ہم سوق واقف پہنچے جو یہاں کا پرانا بازار ہے جسے اب بہت جدید شکل دی جاچکی ہے۔ وہاں ہمیں ایک ریسٹورنٹ کھلا ملا جس کے مالک کیرالہ کے تھے۔ وہاں ہمیں کڑک چائے اور باقی بہت کچھ کھانے پینے کو دستیاب تھا، اور ہمیں یہاں بریانی اور شورما وغیرہ بھی مل گیا۔ جب وہاں سے اٹھے تو ساڑھے 4 بج رہے تھے اور فجر کی اذان کی آواز آنا شروع ہوگئی تھی اور یوں میں صبح 5 بجے ہوٹل پہنچا۔

تبصرے (0) بند ہیں