میں جانتی ہوں بہت سے لوگ تیسری پوزیشن کے میچ کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو سیمی فائنل یا فائنل کو دی جاتی ہے، حالانکہ یہ میچ بھی کم اہم نہیں ہوتا۔ تیسری پوزیشن کا میچ جیتنے والی ٹیم نہ صرف کانسی کا تمغہ حاصل کرتی ہے بلکہ وہ فیفا کی جانب سے 27 لاکھ ڈالر کی بھاری انعامی رقم بھی گھر لے کر جاتی ہے۔

تیسری پوزیشن کی کرسی کے لیے میچ کوئی آسان مقابلہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ٹیمیں اپنے پورے اسکواڈ کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں۔ تو یہ تاثر بلکل غلط ہے کہ تیسری پوزیشن کا میچ بورنگ ہوتا ہے۔ اگر تیسری پوزیشن کے لیے ہونے والے چند گزشتہ مقابلوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس پلے آف میں کبھی بھی گولز کی کمی نہیں رہی۔ دونوں ہی ٹیمیں اپنا بھرپور کھیل پیش کرتی ہیں اور اسکور کارڈ متاثر کُن رہتا ہے۔

جیسی کارکردگی اس عالمی کپ میں کروشیا اور مراکش نے دکھائی اس کے بعد تو یہی توقع تھی کہ یہ میچ کافی سنسنی خیز ہوگا اور میرا اندازہ درست ثابت ہوا۔

دوحہ کے الخلیفہ اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا یہ میچ اپنی شروعات سے ہی کافی دلچسپ رہا۔ میچ کے صرف 7ویں منٹ میں ہی سیمی فائنل کی طرح مراکش نے شروعاتی لمحات میں ہی گول کھا لیا۔ یہ ایک شاندار ہیڈر تھا جسے کروشیا کے کھلاڑی یوسکو گارڈیول نے اسکور کیا۔ یوسکو گارڈیول نے 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ میں کافی متاثر کُن کھیل پیش کیا۔ ان کی دفاعی صلاحیتوں کے ہر سو چرچے رہے اور یہی وجہ ہے کہ فٹبال کے حلقوں کی جانب سے عالمی کپ کی آئیڈیل الیون ٹیم میں کروشیا کا کوئی اور کھلاڑی موجود ہو نہ ہو لیکن گورڈیول کی جگہ پکی ہے۔ یہ گول گارڈیول کا اس عالمی کپ میں پہلا گول تھا اور وہ مستحق تھے کہ اتنا شاندار ٹورنامنٹ کھیلنے کے بعد وہ ایک گول تو اپنے نام کریں۔

لیکن یہ خوشی زیادہ دیر نہیں رہی اور 112 سیکنڈ بعد ہی کروشیا کی برتری کو مراکش نے برابر کردیا۔ جی ہاں ابھی میچ شروع ہوئے 9 منٹ ہی گزرے تھے کہ اسکور کارڈ 1-1 ہو چکا تھا۔ اتنی جلدی برابری کی صورت میں ردِعمل آنا بالکل غیرمتوقع تھا۔ مراکش کی جانب سے گول بھی ان کے ڈیفینڈر اشراف داری نے اسکور کیا جو ہیڈر تھا۔ اگر کسی وجہ سے میچ نہیں دیکھ پائے تو آپ کو صرف 9ویں منٹ کے اس اسکور سے اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ کھیل کتنا تیز کھیلا جا رہا تھا۔

یوں کھیل کی شروعات بہت اچھی رہی۔ ایک ایسا میچ دیکھنے کو ملنے والا تھا جس میں دونوں ٹیمیں ہی ایک دوسرے کا سخت مقابلہ کرنے والی تھیں۔

کروشیا کا کھیل ہمیشہ کی طرح بہترین تھا۔ پاسنگ پر تو جیسے وہ کسی خاص قسم کا عبور رکھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ ایک بار کروشیا کے پاس بال آجائے تو ان کے کھلاڑیوں سے بال چھیننا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ کل ہم نے مراکش کے کھیل میں بھی یہی دیکھا۔ کل کے میچ میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ پہلے ہاف میں بال پر دونوں ٹیموں کا قبضہ برابر تھا حالانکہ ہم نے گزشتہ میچوں میں دیکھا تھا کہ بال پر گرفت کے حوالے سے کروشیا کی ٹیم ہمیشہ آگے رہی تھی۔

پہلے ہاف کے اختتام میں ہی کروشیا کے اوریسچ نے شاندار گول اسکور کیا جس کے بعد کروشیا نے مقابلے میں 1-2 کی برتری حاصل کرلی جو میچ کا حتمی نتیجہ بھی رہا۔

یہاں میں اوریسچ کے ’اسٹائلش‘ گول کی تعریف کرنا چاہوں گی۔ کروشیا نے بہت اچھا موو بنایا تھا مگر مراکش کی دفاعی فارمیشن نے اسے ناکام بنایا لیکن وہ بال کو کلیئر نہیں کرپائے اور بال اوریسچ کے پاس آگئی جس پر انہوں نے شاندار گول داغا اور بال پوسٹ سے لگ کے نیٹ کے اندر گئی۔

دوسرے ہاف میں مراکش متواتر کوششیں کرتی رہی لیکن قسمت ان کے ساتھ نہیں تھی بہت اور واضح مواقع ضائع ہوئے۔ مراکش کی ٹیم موو اچھا بنا رہی تھی پر وہ فینش نہیں کر پارہے تھے جو پچھلے میچ میں بھی ان کی ناکامی کی وجہ تھی۔

میچ کے اختتامی وقت میں مراکش کے کھلاڑی النسیری نے بہت اچھی کوشش کی جو اگر گول ہوجاتا تو شاید معاملہ پینلٹیز پر چلا جاتا اور دونوں ہی ٹیمیں پینلٹیز کے معاملے میں بہترین تھیں۔

خیر مراکش ٹورنامنٹ میں تیسری پوزیشن حاصل نہیں کرپائی۔ میچ کے دوران ہم نے دیکھا کہ مراکش کے کھلاڑی باربار ریفری سے بحث کرتے نظر آئے جبکہ میچ کے اختتام کی سیٹی بجتے ہی تمام کھلاڑیوں نے باقاعدہ ریفری سے تکرار شروع کردی اور کوچ ولید ریگراگی بھی میدان میں آکر ریفری سے بحث کرتے نظر آئے۔ سیمی فائنل کے ریفری کے خلاف بھی مراکش فیفا میں درخواست دائر کرچکا ہے جبکہ کل بھی حالات کچھ مختلف نہیں تھے۔ مراکش کی ٹیم تیسری پوزیشن سے محرومی پر غصے میں نظر آئی جس کی بھڑاس انہوں نے ریفری پر بھی نکالی۔

البتہ ان تمام باتوں کے باوجود مراکش فیفا ورلڈ کپ میں چوتھی پوزیشن حاصل کرنے والا پہلا افریقی ملک ہے جس نے ان کے عالمی کپ کو منفرد اور مزید دلچسپ بنایا۔ انہیں چوتھی پوزیشن پرتمغہ تو نہیں ملا مگر 25 لاکھ ڈالرکی انعامی رقم ضرور ملے گی۔

مراکش کے کوچ ولید ریگراگی نے میچ سے قبل بیان دیا تھا کہ وہ مراکش کی موجودہ فٹبال ٹیم کو ایسی ٹیم بنانا چاہتے ہیں جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے۔ میرے خیال میں وہ اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ 2026ء کے فیفا ورلڈ کپ میں مراکش ایک ایسی ٹیم ہوگی جسے مضبوط حریف کے طور پر دیکھا جائے گا۔

کروشیا کی ٹیم بھی ہمیں حیران کر رہی ہے۔ 2018ء کے عالمی کپ کی رنر اپ ٹیم نے اس ورلڈ کپ میں کانسی کا تمغہ جیتا ہے۔ 1998ء میں اپنا پہلا عالمی کپ کھیلنے والی کروشیا اب تک 6 ورلڈ کپ کھیل چکی ہے جس میں سے 3 میں اس نے تمغے اپنے نام کیے۔ 40 لاکھ آبادی والے اس ملک کے لیے اس سے بڑا اعزاز کوئی نہیں کہ وہ دنیائے فٹبال کی مضبوط ٹیموں میں سے ایک ہے۔

لوکا موڈرچ نہ صرف کروشیا کے بہترین کھلاڑی ہیں بلکہ لگاتار دو عالمی کپ میں اپنی ٹیم کو دوسری اور تیسری پوزیشن پر براجمان کر کے انہوں نے بحیثیت کپتان تاریخ میں اپنا نام لکھوالیا ہے۔

آج کھیلا جانے والا عالمی کپ کا فائنل میچ فٹبال کی دنیا کے نئے حکمران کا اعلان کردے گا۔ جہاں آخری مقابلے کے لیے میں پُرجوش ہوں وہیں یہ سوچ کے بھی دل ڈوب رہا ہے کہ یہ عالمی کپ کا آخری میچ ہے اور اگلے عالمی کپ کے لیے 4 سال کا طویل انتظار کرنا ہوگا۔ آج رات عالمی کپ کی ٹرافی کون سی ٹیم اٹھائے گی، یہ جاننے کے لیے انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں