’دیگر ماؤں کی طرح میں بھی اپنے بچوں کی تصاویر اکثر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتی تھی‘، یہ کہنا تھا فریحہ سلطان کا جن کے 2 بیٹے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے اس رجحان کو ترک کردیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ جب ان کے بچے بڑے ہوجائیں اور خود اپنی سوشل میڈیا پروفائلز بنائیں تو پھر وہ خود ہی اپنی تصاویر پوسٹ کریں۔

اب جبکہ ان کے بیٹے لڑکپن میں ہیں اور خود اپنی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں تو فریحہ بھی انہیں اپنے اکاؤنٹس پر شیئر کرتی ہیں لیکن پہلے سے زیادہ احتیاط کے ساتھ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں ایک ایسے ادارے کے ساتھ کام کررہی ہوں جو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ذاتی معلومات فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا‘۔ حقیقت یہ ہے کہ آن لائن اپنی اور اپنے بچوں کی تصاویر پوسٹ کرنے کے منفی اثرات سے کم لوگ ہی واقف ہوتے ہیں۔

آن لائن دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ جب ایک بار کوئی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوجائے تو پھر وہ اس شخص کی نہیں رہتی جس نے اسے پوسٹ کیا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس اس بات کا حق محفوظ رکھتی ہیں کہ وہ اپنی سائٹ پر پوسٹ ہونے والی تصاویر کو جیسے چاہیں استعمال کریں۔ وہ ان تصاویر کو پوسٹ کرنے والے سے اجازت لینے یا اسے اطلاع دینے کی پابند بھی نہیں ہیں کیونکہ لائسنس تو اس سائٹ کے پاس ہے۔

ناز فاروق* کے 2 بیٹے ہیں، وہ بھی اپنے بیٹوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں کرتیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے شوہر اور میں بچوں کی تصاویر صرف واٹس ایپ پر شیئر کرتے ہیں اور وہ بھی صرف ان بہت قریبی رشتے داروں کے ساتھ جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ یہ تصاویر کسی اور کو نہیں بھیجیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگ اپنے بچوں کی تصاویر آن لائن کیوں شیئر کرتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی عادت نہیں ہے اور اس سے بچے شناخت کی چوری سے لے کر حراسانی تک مختلف خدشات کا شکار ہوجاتے ہیں‘۔

آن لائن پوسٹ کی گئی تصویر کی مدد سے ڈیجیٹل ذریعے سے کسی کی بھی شناخت یا مقام کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے بولو بھی کی شریک بانی فریحہ عزیز نے کہا کہ ’ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آن لائن تصاویر پوسٹ کرنا خطرے کا سودا ہوسکتا ہے۔ آن لائن پوسٹ کی گئی تصاویر کو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ اسے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، اس بات کا بھی امکان ہوتا ہے کہ اس بچے کو ہی نشانہ بنایا جائے‘۔

شین شرمن، ٹیکلورس نامی ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے سی ای او ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر نیٹ ورکنگ سائٹس کی شرائط و ضوابط میں یہ بات لکھی ہوتی ہے کہ تصویر اپلوڈ ہونے کے بعد سے ہی ویب سائٹ اس بات کا حق رکھتی ہے کہ اسے کسی اجازت کے بغیر استعمال کرسکے۔ یہ ایک خطرناک بات ہوسکتی ہے خاص طور پر کہ جب آپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ یہ تصاویر کون اور کس مقصد کے لیے استعمال کرے گا‘۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پرائیویسی سیٹنگز سخت کرنے سے تصاویر محفوظ ہوجاتی ہیں لیکن فریحہ عزیز کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے ’انٹرنیٹ پر کوئی چیز نجی نہیں ہوتی۔ آپ کی پرائیویسی سیٹنگز کتنی ہی سخت کیوں نہ ہوں آپ کی پروفائل پھر بھی ہیک ہوسکتی ہے۔

’اگر آپ کی پروفائل محفوظ بھی ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ آپ کے دوست کی پروفائل محفوظ نہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی بھی فرد جو آپ کی تصاویر تک رسائی رکھتا ہو وہ غیر محفوظ ہوسکتا ہے اور اس طرح آپ کی تصاویر بھی دنیا کے سامنے آسکتی ہیں۔‘

صرف یہی نہیں ہے کہ جو تصاویر طویل مدت تک انٹرنیٹ پر رہیں ان کے غلط استعمال کا ہی خطرہ ہوتا ہے بلکہ کچھ عرصے کے لیے اور انسٹاگرام یا اسنیپ چیٹ پر محدود افراد کے دیکھنے کے لیے اپلوڈ کی گئی تصاویر بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ لوگ ان تصاویر کے اسکرین شاٹ لے کر انہیں اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرسکتے ہیں یوں اگر ان کے کپمیوٹر سے کسی قسم کی ڈیٹا بریچ ہوتی ہے تو تمام مواد انٹرنیٹ بشمول ڈارک ویب پر پھیل سکتا ہے۔

تو ایسی صورتحال میں بچے کی آن لائن حفاظت کو کیسے ممکن بنایا جائے؟ فریحہ عزیز کے مطابق ’اپنے بچے کو محفوظ رکھنے کے کوئی طے شدہ طریقہ کار نہیں ہیں۔ اگر آپ کسی اور کی تصویر پوسٹ کررہے ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی یا ان کے والدین کی اجازت لیں۔ یہ تجویز بھی دی جاتی ہے کہ بچوں کی حفاظت کے پیش نظر اسکول یونیفارم میں ان کی تصویر اپلوڈ نہ کی جائے۔ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ اکیلے بچے کی تصویر کی جگہ بچوں کی گروپ فوٹو اپلوڈ کی جائے یا پھر بچوں کے چہرے چھپا دیے جائیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’چونکہ پرائیویسی میں دخل اندازی سے بچنے کا کوئی فول پروف طریقہ نہیں ہے اس وجہ سے آن لائن اپلوڈ کی گئی تصاویر کی ہر دفعہ حفاظت یقینی نہیں بنائی جاسکتی‘۔

لوگ کسی بچے کی تصویر اپلوڈ کرنے سے قبل شاید ہی کبھی اس سے اجازت لیتے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ بیدار ایک کلینیکل سائیکالوجسٹ اور ٹرینر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بچوں کی تصاویر قسم قسم کے حالات میں کھینچی جاتی ہیں اور جب انہیں آن لائن پوسٹ کیا جاتا ہے تو عموماً بچے اس سے شرمندہ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ جب وہ تصویر اچھی نہ ہو یا اس میں کسی ایسی چیز کا اظہار ہورہا ہو جس سے وہ مطمئن نہ ہوں‘۔

فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ پرائیویسی اور اجازت کے حوالے سے بچے کا حق بہت اہم ہے۔ ’بچوں کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہیے، ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں تصاویر کا غلط استعمال کیا گیا، خاص طور پر چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق واقعات میں۔

’پریوینٹیشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ، 2016ء میں تصاویر کے غلط استعمال کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم کی سرگرمی کے خلاف ایف آئی اے میں شکایت کی جاسکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر آپ کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس بارے میں شکایت درج کروانے کے حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ ایف آئی اے میں شکایت درج کروانے کے علاوہ لوگ سائبر پرائیویسی کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں سے بھی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بھی ایک ہیلپ لائن ہے جس کے ذریعے انٹرنیٹ صارفین اپنے خدشات کا ظہار کرسکتے ہیں اور کسی معاملے پر تجاویز حاصل کرسکتے ہیں۔

آج کے دور میں موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی بہت آسان ہے اور اکثر بچے بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنی تصاویر کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ بیدار کا کہنا ہے کہ ’ایک بچے کی زندگی کا ایک بڑا حصہ آن لائن گزرتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جو کچھ ہم آن لائن پوسٹ کرتے ہیں وہ ہمارے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی مشکل صورتحال سامنے آتی ہے تو اس کے اثرات صرف آن لائن دنیا تک محدود نہیں ہوتے۔ اس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ بچہ کسی سے دوستی نہ کرے اور اس ڈر سے اسکول نہ جائے کہ آن لائن جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے لوگ اس کے بارے میں مختلف باتیں کریں گے‘۔

بدقسمتی سے آمنہ* کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ آمنہ اسکول کی طالبہ ہیں اور انہوں نے اسنیپ چیٹ پر کچھ تصاویر پوسٹ کیں جنہیں اس کے والدین ’قابلِ اعتراض‘ تصاویر قرار دیتے ہیں۔ آمنہ آن لائن کچھ لڑکوں سے رابطے میں آئی جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ ان کے گھر والے اس واقعے کی تفصیلات میں تو نہیں جانا چاہتے لیکن انہوں نے یہ ضرور بتایا کہ جیسے ہی انہیں اس واقعہ کے بارے میں معلوم ہوا وہ آمنہ کی مدد کے لیے آگے آئے۔

ابتدا میں تو آمنہ کے والدین نے فون کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی۔ کورونا کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہوگئی کیونکہ آمنہ کو اپنا اسکول کا کام مکمل کرنے کے لیے آن لائن رہنا پڑتا تھا۔ آمنہ کا کہنا ہے کہ ’اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے اسنیپ چیٹ پر تصاویر پوسٹ کرکے غلطی کی لیکن اسے لگتا ہے کہ آج تک اس کی اس غلطی کو بھلایا نہیں گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ بہت شرمندہ اور خاموش رہنے لگی ہے‘۔

ڈاکٹر عائشہ بیدار کا کہنا ہے کہ لوگوں کی جانب سے رائے قائم کیے جانے کا خوف ذہنی صحت سے متعلق ایک اہم مسئلہ ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بچوں میں مشکل صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیتیں بہت محدود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وجہ سے اگر کسی کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے تو وہ لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیتے ہیں اور خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے آن لائن کسی فرد کو پرکھنا مشکل ہوتا ہے اور اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ آن لائن دنیا میں وہ کسی غلط شخص پر بھروسہ کرلیں۔ انہیں اس سلسلے میں مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ انہیں ابتدائی عمر میں ہی وہ چیزیں سکھادی جائیں جو ان معاملات میں ان کے کام آئیں‘۔

بچوں کو یہ بات بتانی بھی ضروری ہے اس قسم کے معاملات میں مدد لینا بہتر ہے۔ کاؤنسلنگ اور تھیراپی کے ذریعے بھی بچوں کو اس قسم کے حالات سے نمٹنا سکھایا جاسکتا ہے اور یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ اسکول میں اور معاشرے میں دیگر لوگوں سے کس طرح ملنا چاہیے۔

بدقسمتی سے مدد حاصل کرنے کے بجائے لوگ اکثر اس سے انکاری رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آمنہ کی والدہ صباحت* نے اس بات کو تسلیم ہی نہیں کیا جو ان کی بیٹی کے ساتھ ہوا۔ اس انکار کے نتیجے میں وہ آمنہ کو کاؤنسلنگ سیشنز کے لیے ہی نہیں لے کر جاتیں کہ وہ اس کیفیت سے باہر آسکے۔

ان چیلنجز کے باوجود ڈاکٹر عائشہ بیدار اس بارے میں پُرامید ہیں کہ بچوں، والدین اور تربیت یافتہ تھیراپسٹ کے درمیان ہونے والے مباحث لوگوں کو آن لائن دنیا میں خطرات سے بچنا سکھاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’حالات تبدیل ہورہے ہیں اور اب زیادہ سے زیادہ والدین ماہرینِ نفسیات سے رابطہ کررہے ہیں اور اپنے بچوں کو تھیراپی سیشنز کے لیے لارہے ہیں۔ کبھی کبھی بچے اپنے والدین سے اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ والدین انہیں ڈانٹیں گے۔ تھیراپسٹ سے بات کرنا مددگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ ہم صورتحال کو درست کرنے کے لیے گھر والوں کے ساتھ کام کرتے ہیں‘۔


*شناخت کی حفاظت کے لیے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔


یہ مضمون یکم جنوری کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں