پنجاب کا روایتی کھیل کبڈی داؤ پیچ اور اچھے استاد سے سیکھے ہوئے داؤ کا ہی کھیل ہے۔ دنیا کے جس حصے میں بھی خالص پنجابی پائے جائیں وہاں اس کھیل، اس کے کھلاڑیوں اور استادوں کا ذکر خوب ہوا کرتا ہے۔

دو پنجابی تو اس کو خوب سمجھ کر لڑ لیتے ہیں مگر پنجابی اور پشتون اگر ایک ٹیم بن کر اس کو کھیلنا چاہیں تو جیت کس کی ہوگی بہت واضح ہے۔ پھر اگر میدان کی مٹی ہی جسم پر نہ لگی ہو اور جسم پر تیل لگا رہ جائے تو گیلے جسم کو کون پکڑے گا؟ پھسلن ہی اتنی ہوتی ہے کہ ہاتھ ڈالے نہ ڈالا جاسکے۔

پنجاب کے اکھاڑوں میں جگہ جگہ جس کھیل اور جیت کی بات ہورہی تھی اس کو 120 کی اسپیڈ پر بریک لگ گئی ہے اور اب اوور اسپیڈ ہونے پر عدالت کی طرف ایک بار پھر منہ کرنا پڑا ہے۔

جنوبی پنجاب کا انجینیئر جاٹوں سمیت نیازیوں کو ہاتھ لگا کر کوَڈی کوَڈی کرتا میدان کی دوسری جانب کا سفر کرکے اپنے جنون میں واپس جاچکا ہے۔ ڈھول کی تھاپ کس کے لیے ہے یہ ابھی تماش بینوں کو سمجھ نہیں آرہی اور پشتون کچھ کرنے کے نہیں کیونکہ وہ اس کھیل کی نزاکتوں سے قطعی لاعلم ہیں۔

محترم پرویز الہیٰ صاحب نے وقت سے پہلے ہی عدالت جانے کا اعلان کردیا تھا کیونکہ انہیں علم تھا یا علم ہوگیا تھا کہ ہاتھ لگ چکا ہے اور دوسرے کیمپ کا کھلاڑی اپنا کام کرگیا ہے۔ یا اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے دوسرے کھلاڑی کا کام خود ہی کردیا ہے تو یہ کوئی چھپی بات نہیں ہوگی۔ بہرحال اب آرام محسوس ہورہا ہوگا۔

محترم فرزندِ گجرات کے ہمنواؤں نے بھی صورتحال کا جائزہ لینا شروع کردیا ہوگا کہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط صرف 27 کلومیٹر کے لیے نہیں بلکہ کراچی تا خیبر ہر طرف اس کا شور اٹھے گا اور گرد و غبار بیٹھنے کے بعد ہی اندازہ ہوگا کہ کس کا لباس محفوظ رہا۔ بے روزگاری، غربت، تعلیم کی کمی، صحت کا تباہ ہونا، خوراک کی کمی، مہنگائی گویا سبھی کچھ ہونے والا ہے مگر یہ تاقیامت تو نہ ہوگا، سال سوا سال میں زندگی معمول پر آنا شروع ہوجائے گی۔

نئی آس، نئی امید کا سہارا ہوگا کچھ نئے کچھ پرانے چہرے میدانِ عمل میں ہوں گے، قیاس کیا جارہا ہوگا کہ ابھی کسی قدر سفر کٹھن ہے یا منزل کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر دھند چھٹ گئی تو راستہ ہموار اور منزل نظر آنا شروع ہوگی۔ نئی فصل، نئے دہقان، نئے آڑھتی، نئی منڈی اگر نظر نہ آئے تو کشتی منجدھار میں ڈوب جائے گی بصورتِ دیگر کنارہ تو مل ہی جائے گا اور ہر کوئی دوسرے مہاجر سے پوچھے گا کہ پاکستان کتنی دُور ہے۔ کچھ راستے میں دم توڑدیں گے، کچھ صدمات اٹھاتے زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے کی کوشش کریں گے اور کچھ لوٹ کر لٹنے کو اپنی راہ نجات جانیں گے۔

اگر پھر بھی زمین کچھ لوگوں پر تنگ نہ ہوئی تو نئے لوگ، نئی راہ، نئی منزل اور نیا ایمان ہوگا مگر اب ایسا نہ ہوگا جب بھوکے لوگوں کے درمیان شادی بیاہ پر سونے کے سکوں کو نچھاور کیا جارہا ہو تو دولت کا حساب بھی دینا پڑجاتا ہے۔ ان غریب بچیوں کا کیا قصور ہے جو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم والے معاشرے میں پیدا ہوئیں اور ان کے والدین رزق حلال کماکر اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتے ہیں۔ سادگی کی مثال اگر نہیں بن سکتے تو کسی دوسرے ملک جاکر اپنی دولت کی نمائش کرنے والے بھی اسی معاشرہ میں رہتے ہیں۔

اچھی بھلی کبڈی کی بات ہورہی تھی۔ دنگل کی بات بھی ہوسکتی تھی۔ دنگل کا بگل تو اسلام آباد میں بجا تھا۔ نہ دنگل ہوا نہ کسی کی ہار ہوئی چند نعرے سنے کہ ’واپس آؤں گا‘۔ یہ تو خبر ہی نہ تھی کہ جی ٹی روڈ سے آنا تھا وہاں بھی راستے میں دنگل کا سامان پنڈی میں ہی گوجر خان کے مقام پر لگا ہوا ہے مگر تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔

انتظار تھا کہ جناب کپتان ایک بار پھر قومی اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے اور راجہ ریاض کو قائد حزبِ اختلاف سے ہٹا کر پچھلی بینچ پر بٹھا دیا جائے گا مگر اسپیر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پہلے 35 ڈگری کا زاویہ لگا کر میدان کا رخ بدلنے کی کوشش کی مگر بات وہاں نہ رکی اور جو کچھ کسر بچ گئی تھی اس پر پھر 35کا زاویہ لگا کر مثلث ہی نہ رہنے دی۔ اب مثلث کے زویے کا کلیہ کون بتائےگا۔

جہلم سے ایک نیا چشمہ پھوٹا ہے کہ ہم خواتین ارکان کی نئی لسٹ دے کر اپنے ارکان اس قدر کرلیں گے کہ راجہ ریاض کو ہٹایا جاسکے۔ جہلم کا یہی چشمہ اپنی زبان کی وجہ سے پولیس کے پاس موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر کو نئی درخواست دے کر اپنا راستہ پھر مسدود کردیا ہے۔ اب جب تک فیصلہ نہیں ہوگا خواتین کی نشستوں کی آئینی شق پر عمل درآمد بھی معطل رہے گا کیونکہ حکم نامہ الگ الگ نہیں ایک ہی ہے یہ بھی مقدمہ عدالت میں ہے۔

پنجاب کے الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ بذریعہ عدالت لینا چاہتے ہیں ایسے ہی خیبر پختونخوا کا فیصلہ عدالت سے، عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ عدالت سے، توہین الیکشن کمیشن کا فیصلہ عدالت میں، جھوٹے حلف نامے کا فیصلہ عدالت میں، توشہ خانہ عدالت میں، ممنوعہ فنڈنگ کیس عدالت میں، پارٹی سربراہی کا معاملہ عدالت میں مگر عدالت میں اب ثاقب نثار موجود نہیں۔

تو کیا پھر فیصلہ سڑکوں پر ہوگا حالانکہ اب تو نہ پنجاب پولیس، نہ پروٹوکول، نہ سرکاری ملازمین، نہ دیگر سہولتیں اور یہی حال خیبر پختونخوا کا ہوگا۔ ابھی تو پولیس کے حصار میں ہیں مگر تاریخ جانتی ہے کہ قلعوں کا حصار قلعوں میں محفوظ لوگوں کو مستقل بنیاد پر بچا نہیں سکتا۔

ذکر ہورہا تھا کہ خواتین کے ذریعے قومی اسمبلی میں نمبر پورے کیے جائیں گے تو یقیناً ان خواتین کو فوقیت دی جائے گی جو مستعفی ہوئی ہیں اور ان کی کارکردگی بے مثال ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہوں اور واقعی اس قابل ہوں کہ قومی سیاست کا دھارا بدل سکیں لیکن یہ بات اٹل ہے کہ کبڈی تو کبڈی کے میدان میں ہی جیتی جاسکتی ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ داؤ پیچ آتے ہوں اور ’دم‘ بھی ہو۔

کئی مہینوں پہلے لکھا تھا کہ اسمبلی میں لوٹ جائیں مصالحت کا راستہ اختیار کریں بند گلی کا مسافر کچھ حاصل نہیں کرے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں