نیوکلیئر پاورجنریشن کی توسیع میں رکاوٹیں حائل

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2023
نیوکلیئر پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی ہائیڈل پاور کے علاوہ تقریباً تمام ذرائع سے نمایاں طور پر سستی ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز
نیوکلیئر پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی ہائیڈل پاور کے علاوہ تقریباً تمام ذرائع سے نمایاں طور پر سستی ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز

چشمہ نیوکلیئر پاور جنریٹنگ اسٹیشن کا پانچواں یونٹ سی-5 پر کام تعطل کا شکار ہوگیا ہے کیونکہ وزارت خزانہ کی جانب سے مبینہ طور پر خودمختار گارنٹی دینے سے انکار کردیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چینی پارٹنر نے 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی 85 فیصد خودمختار گارنٹی سے مشروط فنانسنگ فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی، پلانٹ کی صلاحیت ایک ہزار 200 میگاواٹ ہے۔

اس طرح کی خود مختار ضمانتوں کا مقصد قرض دہندہ کو یہ یقین دہانی کرانا ہوتا ہے کہ اگر متعلقہ ادارہ جیسے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی)، جو اس معاملے میں بنیادی ذمہ دار ادارہ ہے، قرض واپسی میں ناکام رہتا ہے تو حکومت اس کو ادا کرے گی۔

ایسا لگتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض پروگرام نے خودمختار ضمانت کے حوالے سے حکومت کے ہاتھ باندھ دیے ہیں، 23-2022 کے بجٹ میں حکومت نے قومی اسمبلی میں ہنگامی ذمہ داریوں کا بیان دیا۔

فہرست میں وہ تمام ضمانتیں شامل ہیں جو مالی سال کے دوران جاری کی جانے کی توقع ہے، حکومت نے یہ اقدام مالیاتی خطرات پر قابو پانے اور عوامی قرضوں کی رفتار پر قابو پانے کے لیے کیا۔

وزارت خزانہ کے ترجمان معاملے پر ردعمل دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

حالیہ برسوں کے دوران قومی توانائی میں جوہری توانائی میں تیزی سے اضافہ ہوا، دسمبر میں 27.1 فیصد شیئر کے ساتھ اس کا قومی توانائی میں سب سے بڑا حصہ تھا، ہائیڈل، کوئلہ اور مقامی گیس دیگر اہم ذرائع تھے جن کا حصہ بالترتیب 20.4، 18 اور 15.1 فیصد تھا۔

نئی صلاحیتوں میں اضافے کی بدولت سالانہ بنیاد پر دسمبر میں جوہری توانائی کی پیداوار کی مقدار میں 47.5 فیصد اضافہ ہوا، صرف ایندھن کی لاگت کے لحاظ سے جوہری توانائی بجلی کا سب سے سستا ذریعہ ثابت ہوئی، دسمبر میں اس سے پیدا ہونے فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی قیمت صرف 1.10 روپے رہی جب کہ کوئلے سے پیداور کی لاگت 11.50 روپے اور مقامی گیس سے پیداور کی لاگت 10.50 روپے تھی۔

ملک میں اس وقت 6 ایٹمی پاور پلانٹس کام کر رہے ہیں، پہلا نیوکلیئر پاور پلانٹ جو کینپ 1 کے نام سے جانا جاتا ہے، اس پلانٹ نے 1971 میں 137 میگاواٹ بجلی پیدا کرنا شروع کی تھی، 50 سال آپریشنل رہنے کے بعد اسے 2021 میں بند کردیا گیا تھا۔

پی اے ای سی نے پنجاب میں چشمہ کے مقام کے قریب چینی ٹیکنالوجی پر مبنی چار نیوکلیئر پاور یونٹس قائم کیے جو کام کر رہے ہیں، سی ون اور سی ٹو 2000 اور 2011 میں آپریشنل ہوئے جن کی صلاحیت 325 میگاواٹ ہے جب کہ سی 3 اور سی 4 2016 اور 2017 میں آپریشنل کیے گئے جن کی پیداواری صلاحیت 340 میگاواٹ ہے۔

اس کے علاوہ پی اے ای سی نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ-2 اور یونٹ-3 پیراڈائز پوائنٹ پر قائم کیے، دونوں یونٹس کی صلاحیت 110 میگاواٹ ہے، کے ٹو اور کے تھری نے بالترتیب 2021 اور 2022 میں بجلی پیدا کرنا شروع کی۔

6 نیوکلیئر پلانٹس کی مشترکہ صلاحیت 3 ہزار 530 میگاواٹ ہے جس کا ملک کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں 8.1 فیصد حصہ ہے۔

تمام نیوکلیئر پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی ہائیڈل پاور کے علاوہ تقریباً تمام ذرائع سے نمایاں طور پر سستی ہے۔

سی 5 کے علاوہ پی اے ای سی دو نئے پلانٹ ’کے 4‘ اور ’کے 5‘ بھی لگا رہا ہے، ان پلانٹس میں سے ہر ایک کی صلاحیت 1400 میگاواٹ ہوگی، اس کے علاوہ ادارہ مظفر گڑھ میں بھی 2 پلانٹس لگا رہا ہے جن میں سے ہر ایک کی صلاحیت 1400 میگاواٹ ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں