ہمیں ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے، رانا ثنااللہ

اپ ڈیٹ 01 فروری 2023
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ قومی اسمبلی میں خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ قومی اسمبلی میں خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پشاور کے علاقے سول لائنز میں خودکش دھماکے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان کے 22کروڑ عوام اور پورے ملک کے خلاف ہے، ہمیں ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں ہونے والے سانحے پر میرے بھائی نور عالم خان نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے میں ان کے جذبات اور ایک ایک لفظ سے متفق ہوں اور آج ہر پاکستانی کے یہی جذبات ہیں، اس میں پشاور اور لاہور کی کوئی تقسیم نہیں ہے، ہر پاکستانی کی یہی سوچ ہے اور اس کا سوال بھی یہی ہے کہ ہمیں آگے کس طرح سے بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں نور عالم خان سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات میں اس چیز کو بھی شامل کریں کہ 2005 سے 2016 تک 10 برسوں میں درجنوں واقعات ہوئے جن میں ایک ایک واقعے میں شہادتوں کا نمبر 100 سے زیادہ ہے، پنجاب اسمبلی کے واقعے میں ڈی آئی جی سے لے کر کانسٹیبل تک لوگ اس الم ناک سانحے میں شہید ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی تحقیقات کے بعد پکڑے گئے لوگوں میں سے 99فیصد واقعات میں خودکش بمبار حملہ آور کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا اور میں یہ نہیں کہنا چاہوں گا کہ ان کا تعلق پاکستان کے کس علاقے سے تھا کیونکہ وہ پاکستان دشمن لوگ تھے، وہ گمراہی کا شکار لوگ تھے اور انہیں گمراہ کر کے انہیں کام پر بھیجا گیا اور وہ ان شہادتوں کا باعث بنے لیکن پنجاب سے اگر ایسی ایک بھی آواز اٹھی کہ ہمیں کس بات کی سزا دے رہے ہیں تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ میں ایسی ہر بات کو رد کرتا ہوں جو پشاور اور لاہور کے درمیان کی جائے یا پشاور اور راولپنڈی یا اسلام آباد کے درمیان کی جائے، بنوں میں دہشت گردوں کے حملے میں افسروں اور جوانوں کی شہادت ہوئی لیکن ان کی شرائط کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میرے شہر فیصل آباد میں شہدا کے جسد خاکی گئے ہیں اور ہم ان کے خاندانوں، لواحقین اور بیٹے، بھائیوں سے ملے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کی کہ اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔

ان کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم سب کا مشترکہ دکھ ہے، جیسے خواجہ آصف نے کہا کہ ہم سے اجتماعی غلطیاں ہوئی ہیں، کسی عالمی طاقت کے کہنے پر مجاہدین تیار کر کے اس لڑائی میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی، ان لوگوں کو مجاہدین ہم نے خود بنایا اور اس کے بعد پھر وہ دہشت گرد بن گئے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم میں کوتاہیاں بھی ہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور جوان روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں جس میں انہیں ہلاک و گرفتار کیا جاتا ہے اور ہمارے جوان شہادتیں پیش کر رہے ہیں، پوری قوم اس دہشت گردی کے خلاف اپنے ان جوانوں، افسران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پشت پر کھڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پالیسی حکومت نہیں یہ پارلیمان دے گا اور وزیر اعظم تشریف لائیں گے، جیسے ہی اس واقعے سے متعلق ساری تفصیلات مکمل ہو جاتی ہیں تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی آئیں گے اور جیسے آج سے چھ سات ماہ قبل اس معزز ایوان میں پارلیمنٹیرینز کو بریفنگ دی گئی تھی، اسی طرح سے اس مرتبہ بھی عمل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں معزز ایوان سے اس حوالے سے رہنمائی حاصل کروں گا اور ہماری عسکری قیادت بھی اس حوالے سے رہنمائی حاصل کر کے اس حوالے سے عمل کرے گی، ہم نے ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ردالفساد کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہوئی تو دہشت گردی کا خاتمہ ہوا یا اسے کم از کم اس سطح پر لے کر آئے جب اس کا خاتمہ سامنے نظر آ رہا تھا لیکن اس کے بعد پچھلے چار سال میں جن چیزوں پر صرف نظر کیا گیا اس کا یہ شاخسانہ ہے کہ یہ دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ جو بریفنگ دی گئی اس کے بعد کسی نہ کسی حد تک یہ بعد کسی نہ کسی حد تک سجھائی بھی گئی تھی کہ ان سے رابطہ رکھا جائے، بات کی جائے، ان کی تعداد سات سے آٹھ ہزار اور ان کے اہل خانہ کی تعداد 25 سے 30 ہزار ہے، ان کے بچے، بیویاں اور بیٹیاں ہیں تو ان کا کیا قصور ہے، وہ تو دہشت گرد نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی کہا گیا کہ جو لوگ آئین کے مطابق قانون کے تابع واپس آ کر ایک قانون کی پاس داری کرنے والے شہری بننا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کو موقع دیا جائے اور وہ خود کو قانون کے حوالے کریں، یہ پالیسی، سوچ اور فیصلہ غلط ثابت ہوا، اس کے نتائج آج ہمیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ میں اس وقت کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہوں کہ اسی پالیسی کی آڑ میں انہوں نے ان لوگوں کو بھی چھوڑا جن لوگوں کو موت کی سزا ہو چکی تھی لیکن اب اس پالیسی کے ثمرات ہمارے سامنے آ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بارے میں نئے سرے سے اس بات کی ضرورت ہے کہ وزیر اعظم، عسکری قیادت اس ایوان کو اعتماد میں لے اور ہمیں امید ہے کہ ایک مرتبہ پھر پارلیمان کی مجموعی سوچ سے فائدہ ہو گا۔

ان کہنا تھا کہ مسجد میں ہونے والے دھماکے میں اب تک 100 شہادتیں ہو چکی ہیں اور ان شہادتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ 216 زخمیوں میں سے 27 کی حالت نازک ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ ایک ہی خودکش بمبار تھا اور اس کے جسم کے کچھ حصے اور سر ملا ہے جس کے نمونے لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں جبکہ قاون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کے انتہائی قریب ہیں یہ خودکش بمبار وہاں کیسے پہنچا اور اس کے سہولت کار کون تھے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہ واقعہ پاکستان کے خلاف ہے، یہ پاکستان کے 22کروڑ عوام اور پورے ملک کے خلاف ہے، کسی علاقے یا شہر کے خلاف یا حق میں نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں