انسانی حقوق کمیشن نے ڈائریکٹر جنرل حج کے عہدے کے لیے ایک خاتون امیدوار کو صنفی امتیاز کی بنیاد پر مسترد کیے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کی بی ایس-20 کی افسر صائمہ صباح نے گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور موقف اختیار کیا کہ اس نے مذکورہ پوزیشن کے لیے تحریری امتحان میں 100 میں سے 71 نمبر کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن صنفی امتیاز کی وجہ سے انہیں اس عہدے سے محروم کردیا گیا۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وزارت مذہبی امور کو ہدایت کی جائے کہ وہ انہیں کامیاب امیدوار قرار دے اور اس کے تحت بحیثیت ڈی جی حج تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔

درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ انٹرویو کی کارروائی کے دوران وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے وزیر نے درخواست گزار پر صنفی بنیاد پر نامناسب جملے کسے۔

اپنی درخواست میں انہوں نے مبینہ انٹرویو کا ایک ٹرانسکرپٹ بھی جمع کرایا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد صباح نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی، ہائی کورٹ نے جمعرات کو کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے کہا کہ ڈی جی حج کے عہدے کے لیے اہلیت کے معیار میں خواتین کو شامل کیا گیا تھا اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صباح 71 نمبروں کے ساتھ اس ملازمت کے لیے سب سے زیادہ اسکور کرنے والی امیدوار تھیں۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں ڈی جی حج کی حیثیت سے 19 ماہ تک خاتون کی جانب سے خدمات انجام دینے کی نظیر موجود ہے تو ’پاکستان بہترین اور اہل امیدوار صائمہ صباح پر صرف اس لیے پابندی کیوں عائد کرے کہ وہ ایک خاتون ہیں؟‘۔

ایک اور ٹوئٹ میں کمیشن نے کہا کہ جہاں سعودی عرب عازمین حج کا انتظام کرنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، وہیں پاکستان کی وزارت مذہبی امور صنفی بنیاد پر اہل امیدواروں کو مسترد کر رہی ہے۔

آڈیو لیک

اس سلسلے میں وزیر مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی مفتی عبدالشکور اور صائمہ صباح کے درمیان مذکورہ انٹرویو کا مبینہ آڈیو کلپ بھی سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔

لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر عبدالشکور کو انٹرویو میں شریک خاتون صائمہ صباح سے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ حج ایک مذہبی فریضہ ہے اور دنیا بھر سے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا حج مکمل طور پر ڈی جی حج پر منحصر ہے اور لوگ ان کی طرف دیکھتے ہیں، تو اگر اس شخص کی ظاہری وضع قطع اور شخصیت سنت کے مطابق نہ ہو تو پاکستان کے بارے میں کیا پیغام جائے گا۔

اس پر خاتون جواب دیتی ہیں کہ وہ ایک مسلمان ہیں اور ان کے والد بھی ایک ایمان دار آدمی ہیں۔

اس پر وزیر کہتے ہیں نہیں، میں آپ کے بارے میں بات کر رہا ہوں، ہمارے مذہب میں اپنے سر کو اسکارف سے ڈھانپنا لازمی ہے۔

اس پر خاتون نے کہا کہ وہ ان سے اتفاق کرتی ہیں لیکن ضرورت پڑنے پر دوپٹہ لے لیں گی۔

اس کے بعد انٹرویو کے دوران وزیر خاتون سے حجاب کی اہمیت اور اسے نہ پہننے کے حوالے سے سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں ان کے اسکارف نہ پہننے سے دنیا بھر کے ممالک کو کیا تاثر ملے گا۔

بعد میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے ایک بیان میں عبدالشکو نے آڈیو کی سچائی پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئینی عہدے پر فائز رہتے ہوئے صنفی امتیاز کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرویو کے بعد ہونے والی گفتگو کو مبینہ آڈیو میں کانٹ چھانٹ کے بعد پیش کیا گیا لیکن وہ خاتون افسر کے بے بنیاد الزامات کے باوجود اس کا احترام کرتے ہیں۔

عبدالشکور نے کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اسے قبول کریں گے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کرے۔

وزیر نے الزام لگایا کہ خاتون افسر نے اپنے الزامات سے قبل تقرری کے لیے سیاسی طور پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں