نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے انتخابات میں تاخیر کے تاثر کو مسترد کردیا

اعظم خان نے کہا افغانستان پر روس کے حملے کے بعد گزشتہ 40 برسوں سے خطے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے—فوٹو:ڈان نیوز
اعظم خان نے کہا افغانستان پر روس کے حملے کے بعد گزشتہ 40 برسوں سے خطے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے—فوٹو:ڈان نیوز

ایک طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرنے کی ہدایت کے لیے درخواست دائر کی تو دوسری جانب نگران وزیراعلیٰ نے امن و امان کی صورتحال کے باعث انتخابات میں تاخیر کی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس لائنز میں دھماکے کے مقام پر ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ محمد اعظم خان نے کہا کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حالیہ بم دھماکوں کا انتخابات کے انعقاد سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے انتخابات میں ممکنہ تاخیر کے تاثر کو زائل کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور لکی مروت سمیت جنوبی اضلاع میں ایک عرصے سے ہو رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان پر روس کے حملے کے بعد گزشتہ 40 برسوں سے خطے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل اور نگراں حکومت کے قیام کے بعد 90 دن میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کرانے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

تحریک انصاف کے صوبائی رہنماؤں کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانا لازمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کے لیے گورنر خیبر پختونخوا کو خط لکھا لیکن گورنر نے ابھی تک تاریخ نہیں دی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کے اندر الیکشن کرانا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا عدالت اس سلسلے میں اپنا کردار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کا پابند کرے۔

سابق صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما عاطف خان نے ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے اور بروقت الیکشن کرانا آئینی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانے ہوتے ہیں لیکن اب تک گورنر نے تاریخ نہیں دی جو غیر آئینی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پتا نہیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) الیکشن سے کیوں بھاگ رہی ہے، نگران کابینہ غیر سیاسی ہوتی ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کے اراکین ہیں۔

سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشاور دہشت گری کا واقعہ بہت افسوس ناک ہے اور پی ٹی آئی کو اس پر تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے ہماری حکومت کا خاتمہ کیا گیا اس کے بعد حالات خراب ہوگئے ہیں، سیکیورٹی اداوں نے بڑی مشکل سے امن و امان قائم کیا تھا لیکن اب پھر اس کو خراب کیا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہ کہ پی ڈی ایم اب کسی طرح الیکشن کو التوا کا شکار کرنا چاہتی ہے، یہ غیر آئینی کام کر رہے ہیں اور الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں معاشی مسائل ہیں اور کبھی امن وامان کا کہتے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے 17 جنوری کو آئین کے آرٹیکل 112 (1) کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کردی تھی۔

محمود خان نے اپنی ٹوئٹ میں سمری بھیجنے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے قائد عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بنائیں گے۔

گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے 18 جنوری کو سابق وزیر اعلیٰ کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کردیے تھے۔

اعظم خان کو صوبے کا نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا اور 26 جنوری کو 15 رکنی نگراں کابینہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا تھا۔

دوسری جانب گورنر ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق گورنر حاجی غلام علی نے الیکشن کمیشن کو خط ارسال کیا ہے جس میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ سے آگاہ کیا گیا ہے، تاہم خط میں اس تاریخ کا ذکر نہیں کیا گیا جس سے کمیشن کو آگاہ کیا گیا تھا۔

میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو خط ان کے سیکریٹری نے بھیجا تھا اور انہیں یاد نہیں ہے کہ اس میں کس تاریخ کا ذکر تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں