لکھاری سابق سیکرٹری خارجہ اور ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔
لکھاری سابق سیکرٹری خارجہ اور ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔

1989ء میں دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد اور 1991ء میں سوویت یونین کے اختتام کے ساتھ ہی دنیا کے سیاسی منظرنامے پر عالمگیریت کا تصور سامنے آیا۔ سرد جنگ ختم ہوچکی تھی اور اس کے بعد ایک یک قطبی دنیا سامنے آئی جس میں امریکا طاقت کا مرکز بن کر اُبھرا۔

تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی تھی کہ دنیا ایک عالمی گاؤں یا گلوبل ولیج کی صورت اختیار کرلے گی جہاں ثقافتیں اور معیشتیں ایک دوسرے پر بڑے پیمانے پر منحصر ہوں گی جبکہ ممالک کے درمیان اشیا، خدمات، مالیات اور افراد کا آزادانہ تبادلہ ہوگا۔ بعض تجزیہ کاروں نے اسے لبرل جمہوری نظام اور مارکیٹ اکانومی کی جیت بھی قرار دیا۔

1989ء میں شائع ہونے والے اپنے مشہور مقالے ’اینڈ آف ہسٹری‘ میں فرانسس فوکویاما نے اس بات پر زور دیا تھا کہ سیاسیات کا ارتقا مسابقتی سیاسی نظام میں لبرل جمہوریت اور مارکیٹ اکانومی کی جیت پر منتج ہوا ہے۔

اس حوالے سے ایک امید تھی کہ عالمگیر دنیا میں چونکہ ممالک ایک دوسرے پر منحصر ہوں گے اس لیے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک دونوں کو فائدہ ہوگا۔ 2005ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’دی ورلڈ از فلیٹ‘ میں تھامس فریڈمین نے لکھا کہ عالمگیر دنیا میں تاریخی اور جغرافیائی تقسیم بتدریج ختم ہوجائے گی اور تاجروں کو یکساں ماحول فراہم کیا جائے گا جس کے تحت وہ عالمی منڈی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرسکیں گے۔

اسی طرح اقوامِ متحدہ نے نئے مشترکہ فریم ورک کے لیے بڑی کانفرنسز کا انعقاد بھی کیا۔ 1990ء میں اقوامِ متحدہ نے بچوں کی بہبود، 1992ء میں ماحولیات، 1993ء میں انسانی حقوق، 1994ء میں انسانی آبادی، 1995ء میں خواتین اور 1996ء میں آبادکاری کے لیے عالمی کانفرنسز کا انعقاد کیا۔

نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ان کانفرنسز کے 5 سالہ اور 10 سالہ جائزوں کے نتائج نے ایک نئے عالمی سماجی و ثقافتی نظام کو تشکیل دیا جسے مغربی اقدار اور تصورات سے اخذ کیا گیا تھا۔ اس وقت غالب تصور یہی تھا کہ دنیا اب عالمگیر ہوچکی ہے۔

لیکن 9 ستمبر کے واقعے کے بعد حقیقت سامنے آگئی۔ دنیا پر یہ آشکار ہوا کہ وہ غیر ریاستی عناصر بھی ممالک کے باہمی ربط کا غلط استعمال کرسکتے ہیں جو امریکا کے ماتحت چلنے والے جمہوری اور معاشی نظام کے حامی نہیں ہیں۔

2003ء میں امریکا نے عراق پر حملہ کرکے کسی خطرے کی صورت میں پہلے حملہ کرنے کا تصور پیش کیا جو انتہائی خطرناک ثابت ہوا اور بعدازاں دیگر طاقتور ممالک بھی اس کے نقشِ قدم پر چلے۔ 2011ء کی عرب بہار بھی جلد ہی خزاں ثابت ہوگئی اور لبرل جمہوریت کو تمام معاشروں کے لیے واحد حل پیش کرنے کی ایک اور کوشش ناکام ہوئی۔

جبکہ دوسری جانب ایشیا میں سیاسی و معاشی منظرنامے میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آرہی تھی۔ ایشیا میں چین طاقتور اقتصادی قوت بن کر سامنے آیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی طاقت اب ایشیا کی جانب منتقل ہورہی ہے۔ 2008ء میں کشور محبوبانی نے اپنی کتاب ’دی نیو ایشین ہیمسفیئر: دی اِرّریسسٹیبل شفٹ آف گلوبل پاور ٹو دی ایسٹ‘ میں یہ دلیل پیش کی کہ اکیسویں صدی میں مغربی معیشت، تصورات اور اقتدار کو سنگین چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔

اس صدی کے آغاز کی دو دہائیوں میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ مغربی لبرل جمہوریت واحد کامیاب نظام نہیں ہے بلکہ انسانی ترقی کے لیے اس سے زیادہ مؤثر متبادل موجود ہیں۔ اس کی ایک مثال چین کا سامنے آنا بھی ہے۔ چین میں حکومت کا ماڈل لبرل جمہوری نظام سے مختلف ہے۔ اس کے باوجود اُس نظام نے اقتصادی ترقی کی بلند شرح کے حصول اور تقریباً 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے میں بھی مدد فراہم کی۔

عالمگیریت کو جو حالیہ چیلنجز درپیش ہیں ان میں ایک اہم چیلنج امریکا اور چین کے درمیان جاری مقابلہ ہے جس کے باعث دنیا کو ایک نئی سرد جنگ اور تقسیم کی سیاست کا خطرہ ہے۔ امریکا نے چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کے لیے انڈو-پسیفک حکمتِ عملی کا آغاز کیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکا نے اپنی اور یورپ کی معیشتوں کو چینی معیشت سے الگ کرنے کے لیے بھی اقدامات شروع کردیے ہیں۔

کئی پریشان کُن رجحانات بیک وقت ہماری عالمی جغرافیائی سیاست کو متاثر کررہے ہیں۔ آزاد بین الاقوامی تجارت کی جگہ اب تجارتی تحفظ پسندی لے رہی ہے۔ مہاجرین کو پہلے معاشرے کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا انہیں اب ان معاشروں، معیشتوں یا ثقافتوں کے لیے خطرہ سمجھا جارہا ہے۔ زینوفوبیا، اسلاموفوبیا اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل گروہوں کے عروج کے باعث معاشرتی خرابیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ قوم پرستی بھی عروج پر ہے جسے عوامی رہنما، باہمی انحصار کے تصور کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

بظاہر لگتا ہے کہ دنیا عالمگیریت کے خاتمے یا ڈی گلوبالائزیشن کی جانب گامزن ہے۔ یہ کوئی ایسا مستقبل نہیں ہے جس کی خواہش کی جائے کیونکہ عالمی سلامتی کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی جیسے وجودی اور مشترکہ مسائل سے ممالک انفرادی طور پر کبھی بھی نمٹ نہیں سکتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مغرب نہیں بلکہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے عالمگیریت کا علم بردار بن کر سامنے آرہا ہے۔

ان مشکل حالات میں پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لیے بہترین حل یہی ہوگا کہ وہ اپنی معاشی جغرافیائی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، خود انحصاری کے لیے اپنی مدد آپ کی حکمتِ عملی اپنائیں۔

ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ ایک خوشحال جنوبی ایشیا کے لیے اپنے خطے کے اندر رابطے اور تجارت کی اہمیت پر زور دیں اور خطے سے باہر اپنے اقتصادی تعلقات کو ہر ممکن حد تک مضبوط بنائیں۔


یہ مضمون 14 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں