’سندھو گھاٹی اور سمندر‘، ابوبکر شیخ کی تیسری کتاب ہے۔ مصنف کا تعلق زیریں سندھ کے ضلع بدین سے ہے اور وہ تقریباً 3 دہائیوں سے ماحولیاتی تحفظ اور ماہی گیروں کے حقوق کے حوالے سے متعدد بار قلم اٹھا چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ابوبکر شیخ کی گزشتہ 2 کتابوں، ’نگری نگری پھرا مسافر‘ اور ’تاریخ کے مسافر‘ میں بھی سندھ میں ماحولیاتی تباہی پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ دریائے سندھ اور اس کے ڈیلٹا کنارے بسنے والی ماہی گیربرادری کی حالتِ زار بھی ان کی توجہ کا خصوصی موضوع رہے ہیں۔

چونکہ ابوبکر شیخ کی کہانیاں، متعلقہ علاقوں میں ان کے حقیقی دوروں اور تجربات پر مبنی ہوتی ہیں اس لیے ان کی تحریر سفرنامے جیسی لگتی ہے۔ اپنی تحریر میں وہ جن احساسات کو شامل کرتے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں اور کئی مواقع پر وہ متاثر کُن بھی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں کہیں بھی کسی بھی مقامی زبان میں اس طرح کا منفرد کام کبھی نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابوبکر شیخ صرف سندھی زبان میں ہی نہیں بلکہ دیگر مقامی زبانوں میں بھی اس سفرنامہ نگاری میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔

اس کتاب میں انہوں نے اپنی گزشتہ کتابوں کی طرح دریائے سندھ کے کم ہوتے ڈیلٹا یا دریائے سندھ کے دونوں اطراف سے نکلنے والے سیم نالوں کے باعث ہونے والی ماحولیاتی تباہی کے علاوہ دیگر موضوعات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ ابوبکر شیخ کی تحریر کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ دیگر مصنفین کی طرح دوسروں پر تنقید کا سہارا نہیں لیتے۔ ان کی تحریریں پڑھ کرگمان ہوتا ہے جیسے لکھاری یا جن کے اقوال انہوں نے اس تحریر میں شامل کیے ہیں، ان سب کے ذریعے وہاں کی زمین خود ہم سے مخاطب ہے۔

اپنی حالیہ کتاب میں بھی لکھاری نے ماحولیات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس کتاب میں سندھ میں ماحولیاتی تباہی سے زیادہ تاریخ کو بھی توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ ابوبکر شیخ ماہرِ ماحولیات تو پہلے ہی تھی مگر اب وہ سفرناموں کے مصنف ہونے کی حیثیت سے مؤرخین کی صف میں بھی شامل ہوگئے ہیں۔

یہ یقینی طور پر مصنف کے تجربے، وسیع مطالعے اور تحقیق سے پیدا ہونے والی فکری تکمیل کا واضح اشارہ ہے۔ ان کی نثر خوب صورت تشبیہات سے بھری ہوئی ہے۔ سیہون کے نزدیک بھگو ٹھوڑو کی پہاڑیوں پر کھڑے انہیں پہاڑوں سے آتی ریل ایسی لگتی ہے جیسے ’پہاڑ ریل کو اگل رہے ہوں‘۔ اسی طرح مصنف کو کسی ڈاکٹر غلام محمد کھٹی کے لہجے سے محبت ایسے بہتی ہوئی نظر آتی جیسے ’رہٹ کی لوٹیوں سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی گرتا اور بہتا ہے‘۔

ڈاکٹر غلام محمد کھٹی نے بیان کیا کہ کیسے سمندر کی سطح میں اضافہ ہونے کے باعث انہیں ڈیلٹا کنارے واقع اپنی کھاروچھان نامی بستی کو چھوڑنا پڑا اور اب وہ کراچی میں ابراہیم حیدری کے قریب واقع ریڑہی گوٹھ میں مقیم ہیں۔ ان کی داستان جذبات اور احساسات سے پُر ہے۔ ہجرت کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہوگیا کیونکہ ’ان کی زندگی کا درخت پرائی زمین میں جڑ ہی نہ پکڑ سکا‘۔

’سندھو گھاٹی اور سمندر‘ میں شامل تمام واقعات کا آغاز انتہائی شاعرانہ انداز میں کیا گیا ہے چاہے وہ ڈیلٹا کے علاقے میں سمندر کی زد میں آنے والی کھارو چھان کی زرعی زمینوں کا واقعہ ہو یا پھر سندھ کے آخری آزاد حکمران مرزا جانی بیگ کی طرف سے اکبر بادشاہ کے زیریں سندھ کو ضم کرنے کی فیصلے کی مخالفت ہو ۔ ان کی خلاف ورزی ایک ایسا قدم تھا جو ٹھٹہ پر مصائب کے انبار لے کر آیا جوکہ پہلے ایک انتہائی خوب صورت اور خوشحال شہر ہوا کرتا تھا۔

کتاب میں تعارف کے بعد وہ اصل موضوع کی جانب آئے ہیں۔ اس کتاب میں ایسے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو دریائے سندھ میں میٹھے پانی کی کمی اور اس کے نتیجے میں سمندر کے بڑھنے اور تمر کے جنگلات کی تباہی کی وجہ سے ڈیلٹا میں اپنی آبائی زمینوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ خاندان جو پہلے زراعت کی وجہ سے خوش حال تھے، اب وہ ہجرت کرکے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یہ دنیا جنگ کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کی مدد کے لیے تو کوششیں کرتی ہے لیکن اس کتاب سے قارئین کو یہ دردناک حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ یہاں مائی بھاگی جیسے لوگوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی تھیں جس نے انہیں ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی کارکن بنادیا۔ انہوں نے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک میں بھی اس حوالے سے آواز بلند کی۔ اس کے باوجود وہ اپنی زندگی ایک پناہ گزین کے طور پر غربت میں جی رہی ہیں۔

اسی طرح کی کہانیاں ہم منچھر جھیل کے حوالے سے بھی سنتے ہیں جو جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل تھی لیکن اب وہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث زہرآلود ہوچکی ہے۔ مصنف نے ان لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے جو بڑے لوگوں کی بدانتظامی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ان بڑے لوگوں نے ڈیلٹا اور سندھ کی جھیلیں کبھی نہیں دیکھیں شاید ہی انہوں نے یہاں کی زرعی زمینوں کے حوالے سے موجود پرانی رپورٹیں پڑھی ہوں۔

ابوبکر شیخ نے بطور مورخ بھی خود کو منوایا ہے۔ وہ سندھ میں نادر شاہ کے حملوں کی کہانی بھی اتنی ہی آسانی سے بیان کرسکتے ہیں جس آسانی سے وہ 16ویں صدی کے ترک ایڈمرل سیدی علی رئیس کے اسفار کے بارے میں بتاتے ہیں۔ انہوں نے بحرِ ہند پر برتری حاصل کرنے کے لیے پرتگالیوں کا مقابلہ کیا تھا۔

جن برطانوی مصنفین نے ابوبکر شیخ کو متاثر کیا ان میں برنس برادران (جیمز اور الیگزینڈر)، ایڈورڈ ایسٹویک جبکہ ’ایمپائرز آف دی انڈس: اسٹوری آف اے ریور‘ کی لکھاری ایلس البینیا شامل ہیں۔ اپنی کتاب کے ایک باب میں ابوبکر شیخ نے ایسٹویک کا شکریہ بھی ادا کیا ہے کہ انہوں نے استعماری دور میں اس علاقے کا دورہ کیا۔

یہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرسکتا ہے کہ مصنف سندھ کے ایک اور ہمدرد میجر جیمز اوٹرام کا تذکرہ کریں گے۔ یہ وہ برطانوی فوجی افسر تھے جنہیں تالپوروں کی جانب سے بہت غلط سمجھا گیا تھا۔ جس طرح ابوبکر شیخ نے اس کتاب میں مختلف شخصیات کی تاریخ کا حوالہ دیا ہے اور قارئین سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان واقعات کا ذکر کریں گے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان واقعات کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے شاید وہ ایک اور کتاب لکھیں۔

بہ ہرحال ان کی موجودہ کتاب ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘ سندھ کی تاریخ اور ماحولیاتی تباہی کا شکار لوگوں کی حالت زار کے حوالے سے ایک بہترین کام ہے۔ ہر وہ شخص جو ابوبکر شیخ کی تحریروں کو پڑھتا ہے، اس کے لیے یہ حقیقت حیرانی کا باعث ہے کہ سرکار ان کی خدمات کو نظرانداز کررہی ہے۔

اگر کوئی واقعی سندھ کی زمین کو محفوظ بنانے کے حوالے سے سرگرم ہے تو وہ ابوبکر شیخ ہیں۔ صوبائی حکومت کو انہیں وہ اہمیت دینی چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں۔


کتاب کا نام: سندھو گھاٹی اور سمندر

مصنف: ابوبکر شیخ

ناشر: سنگِ میل، لاہور

صفحات: 350


یہ مضمون 19 فروری 2023ء کو ڈان بکس اینڈ اوتھرز میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں