بیرون ملک جانے کی جستجو میں جانیں گنوانے والے پاکستانی نوجوان

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2023
بیرون ملک جانے کے لیے کوشاں نوجوان پاسپورٹ کے حصول کے لیے گجرات پاسپورٹ آفس کے باہر قطار میں کھڑے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
بیرون ملک جانے کے لیے کوشاں نوجوان پاسپورٹ کے حصول کے لیے گجرات پاسپورٹ آفس کے باہر قطار میں کھڑے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

جب محمد ندیم صوبہ پنجاب میں واقع اپنے گھر سے نکلے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ ان کے بخیریت یورپ پہنچنے کی دعا کریں لیکن اس سے قبل کہ وہ اعتراض کرتیں، ندیم وہاں سے روانہ ہو گئے۔

خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق بہتر زندگی کے لیے مغربی ملک کے لمبے سفر کے لیے روانگی سے قبل علی حسنین نے اپنے لیے خریدے گئے نئے کپڑے اہلخانہ کو دکھائے۔

دونوں افراد گجرات سے روانہ ہوئے لیکن وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے لیکن تیزی سے ابتری کا شکار ملکی معیشت کے پیش نظر بیرون ملک بہتر مستقبل کی تلاش میں انسانی اسمگلنگ کے جال میں پھنس کر اس سفر میں ایک دوسرے کے راہی بن گئے۔

ان کے اہلخانہ گزشتہ ماہ لیبیا سے یورپ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہونے والے یہ دونوں افراد براعظم کے کنارے پر ایک خطرناک کشتی کے حادثے کا شکار ہو گئے۔

ندیم کی والدہ کوثر بی بی نے کہا کہ جب یہ خبر ہمیں ملی تو ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارے سر پر آسمان گر پڑا ہو، میں یہ درد برداشت کرنے سے قاصر ہوں۔

جہاں ایک طرف ندیم کی والدہ اپنے بیٹے کی موت پر صدمے میں تھیں وہیں دوسرے کمرے میں ان کی اہلیہ شدت غم سے نڈھال تھیں۔

پاکستان کی معیشت کئی سالوں کی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کے سبب شدید گراوٹ سے دوچار ہے جہاں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں اور مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بینکوں کی جانب سے ایل سی نہ کھولنے کے سبب صنعتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور روز نئے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔

ملک میں خراب ہوتی اس معاشی صورتحال کے پیش نظر نوجوان اپنی معاشی حالت کے سدھار اور خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے جان خطرے میں ڈال کر غیرقانونی راستے اختیار کر کے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

40 سالہ ندیم پر ایک بیوی کے ساتھ تین بیٹوں کی بھی ذمہ داری تھی لیکن وہ فرنیچر کی دکان میں کام کرتے ہوئے یومیہ 500 سے ہزار روپے دیہاڑی کما پاتے تھے اور اسی پریشانی سے نکلنے کے لیے انہوں نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا اور چند ہفتوں قبل دبئی، مصر اور لیبیا کے راستے اٹلی کے لیے روانہ ہوئے۔

شدت غم سے نڈھال محمد ندیم کے اہلخانہ— فوٹو: اے ایف پی
شدت غم سے نڈھال محمد ندیم کے اہلخانہ— فوٹو: اے ایف پی

ندیم کے 20 سالہ بھائی محمد عثمان نے کہا کہ ہمیں خوشی تھی کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے بیرون ملک جا رہے تھے۔

ایجنٹ کو 22 لاکھ کی رقم کی ادائیگی کے لیے قرض کا انتظام کرنے کے بعد ندیم نے اپنے دوست کو بتایا کہ انہیں آرام دہ سفر کی توقع ہے کیونکہ سمندر قدرے پرسکون ہے اور کسی بھی قسم کی دشواری پیش نہیں آئے گی۔

دفتر خارجہ نے دو ہفتے قبل ہی ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔

البتہ حسنین کے اہلخانہ کو موت کی باضابطہ تصدیق سے قبل ہی ان کے بیٹے کی تصویر کے ذریعے موت کا علم ہو گیا تھا۔

اپنے موت کی موت پر نڈھال 72 سالہ محمد عنایت نے کہا کہ ہم بھی ان کے بیرون ملک جانے پر یقین رکھتے تھے کیونکہ یہاں زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔

گجرات سے روزگار کے لیے بیرون جانے کے خواہشمند نوجوانوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے اور 1960 کی دہائی میں یہاں کے ایک لاکھ سے زائد افراد اس وقت بیرون ملک گئے تھے جب انہیں برطانوی کمپنی کی جانب سے بنائے جا رہے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر کے لیے بطور مزدور برطانیہ بلایا گیا تھا۔

بیرون ملک جاکر غیر ملکی کرنسی میں کمانے والے نوجوان اپنے گھر کی قسمت بدل دیتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی مزید نوجوان بھی باہر جانے کے خواب سجانے لگتے ہیں، اپنے خاندان کو غربت سے نکالنے والے ان نوجوانوں میں سے لاتعداد اپنے اہلخانہ کو بھی قانونی طریقوں سے باہر بلا لیتے ہیں اور پھر وہیں زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔

پہلے بیرون ملک جانے کا طریقہ کار اتنا مشکل نہ تھا لیکن 9/11 کے بعد امریکا اور یورپی ممالک میں بے انتہا سخت پابندیاں عائد کردی گئیں جس سے انسانی اسمگلنگ کرنے والوں کی چاندی ہو گئی۔

آج گجرات شہر اور اس کے نواحی علاقے ایجنٹوں کا گڑھ تصور کیے جاتے ہیں جو بیرون ملک جانے کے خواہشمند لوگوں کو زمین، سمندر یا فضا کے راستے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔

علی حسنین کا گھرانہ بھی بیٹے کی وفات پر شدید صدمے میں ہے— فوٹو: اے ایف پی
علی حسنین کا گھرانہ بھی بیٹے کی وفات پر شدید صدمے میں ہے— فوٹو: اے ایف پی

ندیم اور حسنین کی آخری گفتگو سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ شاید وہ ایک کشتی میں نہ تھے لیکن ایک ویڈیو میں ان دونوں کو ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، ایجنٹ کی جانب سے ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں ان دونوں کو ایک درجن کے قریب دیگر ایشیائی باشندوں کے ساتھ ایک کمرے میں کمبل پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ویڈیو میں ایک شخص کو پچتے سنا جا سکتا ہے کہ کیا آپ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں اور کوئی آپ کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر رہا؟

اس کے بعد یہ تمام افراد یک آواز ہو کر جواب دیتے ہیں کہ کسی نے ہمیں مجبور نہیں کیا اور ان شااللہ ہم اٹلی پہنچیں گے۔

ندیم کے بھائی عثمان نے کہا کہ اسمگلرز پاکستان میں محدود مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اس بیانیے کے برعکس ایک ایجنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مثبت اثرات ڈالنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا متبادل ہے جو مقامی افراد کی زندگی اتنی تیزی سے بدل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد ہمارے پاس خواب سجا کر آتے ہیں اور ہم ان کو پورا کرنے کے لیے اپنے تئیں پوری کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں رسک بھی ہے۔

ان تمام حادثات کے باوجود ایک سروے کے مطابق حیران کن طور پر اٹلی جانے والے 90 فیصد افراد انسانی اسمگلرز کے ذریعے ہی وہاں پہنچے ہیں۔

فیڈرل ایونسیٹی گیشن ایجنسی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ہر سال غیرقانونی تارکین وطن کو یورپ لانے والوں کے 40 ہزار دورے ہوتے ہیں۔

اسپین نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ ملک میں دو سال سے رہنے والے وقتی رہائش اور باضابطہ طور پر ملازمت پیشہ افراد کا حصہ بن سکتے ہیں جبکہ اٹلی نے بھی اسی طرح کی ایک اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے غیرقانونی تارکین کو قانونی طور پر ملک میں رہائش کی اجازت دینے کا قدم اٹھایا تھا۔

گجرات کے ایک مقامی سیاستدان فاروق افغان نے کہا کہ یہ صورتحال انتہائی شرمناک ہے اور ہمیں مایوسی کا شکار کر دیتی ہے، کوئی بھی اپنے ملک کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا لیکن غربت، لاقانونیت اور بھوک لوگوں کو ہجرت پر مجبور کردیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک رہنے والے یہاں اپنے خاندان کو ایک شاہانہ طرز زندگی فراہم کرتے ہیں جو نئے لوگوں کو اپنی قسمت آزمانے پر مجبور کرتی ہے۔

ملک حق نواز کا خوبصورت گھر اور اس کے باہر کھڑی گاڑیاں ان کی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے— فوٹو: اے ایف پی
ملک حق نواز کا خوبصورت گھر اور اس کے باہر کھڑی گاڑیاں ان کی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے— فوٹو: اے ایف پی

گجرات کے باہر باہر بھکرولی میں گندم کے کھیتوں کے ساتھ ہی خوبصورت حویلیوں اور بڑے بڑے گھر ایک قطار میں بنے ہوئے ہیں جو اس مخصوص علاقے میں رہنے والوں کی خوشحالی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

ایک مقامی شخص نے کہا کہ یہاں آپ کو کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنے گھر سے ایک نوجوان کو یورپ بھیجنے کی کوشش نہ کی ہو۔

ملک حق نواز کبھی کسان ہوا کرتے تھے لیکن اپنے تین بیٹوں کو بارسلونا بھیجنے کے بعد ان کے خوبصورت گھر کے باہر دو بڑی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ عالیشان فرنیچر ان کی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ملک حق نواز نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا قانونی طور پر گیا تھا اور جس کے بعد بقیہ دو 2006 اور 2020 میں ویزا ایجنٹ کے ذریعے گئے اور اب ان سب کے پاس قانونی طور پر وہاں کام کرنے کا حق حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے بیٹے ضرورت کے مطابق زندگی بسر کریں تو ماہانہ 12 لاکھ روپے تک گھر بھیج دیتے ہیں۔

البتہ حق نواز کے پڑوسی فیضان سلیم کی اسپین ہجرت کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور انہیں ترکی سے کئی مرتبہ ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں وہ اب تک لاکھوں روپے گنوا بھی چکے ہیں۔

20 سالہ فیضان نے کہا کہ جب میں نے کشتی الٹنے کی کہانی سنی تو مجھے بہت دکھ ہوا لیکن ان افراد کی مشکلات نے انہیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں