اپریل 2022ء میں اقتدار سے بےدخل ہونے والے عمران خان نے اپنی زیرِقیادت ’لانگ مارچ‘ کا اعلان کیا جس کا مقصد اسلام آباد پر چڑھائی کرنا اور نئی حکومت پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔

انہوں نے اپنے مارچ کو ’آزادی مارچ‘ کا نام دیا تھا لیکن سوال اٹھتا ہے کہ آزادی آخر کس سے؟ ظاہری طور پر تو اس حکومت سے آزادی طلب کی جارہی ہے لیکن اندرونی طور پر آزادی حاصل کرنے کا یہ مسئلہ نفسیاتی طور پر کافی پیچیدہ ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا مارچ بری طرح ناکام ہوا، عمران خان اپنے سپورٹرز کو مسلسل یہی بتانے میں مصروف ہیں کہ اگر انہیں آزادی چاہیے تو وہ ان کی حمایت کریں۔ چونکہ عمران خان کو سب سے زیادہ حمایت شہری متوسط طبقے کی حاصل ہے تو اس تناظر میں آزادی کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ان سیاسی پیچیدگیوں سے آزادی حاصل کی جائے جن کے بارے میں عمران خان اور ان کے حامی یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ان کو محدود کررہی ہیں۔

جس طرح مخالفین نے آئین کا استعمال کرکے عمران خان کو پارلیمنٹ میں شکست دی اس نے عمران خان کے حامیوں کو کافی حد تک حیران کیا کردیا۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ عمران خان کے وزارت عظمیٰ سے ہٹنے تک ان کے حامیوں کے لیے آئین صرف ایک لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی طبقہ ہے جس نے جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے آمروں کی حمایت کی تھی۔ ان دونوں صاحبان کی نظر میں آئین کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ کی نہیں تھی۔

1977ء میں اقتدار میں آنے کے صرف ایک ماہ بعد جنرل ضیاالحق نے ایک ایرانی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین کیا ہے؟ یہ 10 یا 12 صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ میں اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ ہم کل سے ایک مختلف نظام کے تحت زندگی گزاریں گے‘۔ اکتوبر 1999ء میں اقتدار کے تخت پر بیٹھنے والے جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا تھا کہ ’میرے خیال سے آئین صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا چاہیے‘۔

ان دونوں صاحبان نے آئین کو اس روشن مستقبل کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جو انہوں نے پاکستان کے لیے دیکھا تھا۔ بلآخر ان دونوں جرنیلوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں تشکیل دینے کی ضرورت محسوس کی لیکن انہیں سیاسی انجینیئرنگ کرکے بنایا گیا اور انہوں نے آئین میں ترامیم کرکے خود کو بطور ’صدر‘ غیرمعمولی اختیارات دیے۔

دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ان ترامیم نے انہیں آئین میں موجود احتساب کے عمل سے مستثنٰی قرار دے دیا تھا۔ ان دونوں جرنیلوں کے حامیوں کے لیے ان دونوں سے زیادہ اہم کچھ نہیں تھا۔ دونوں نے معاشرے اور بلخصوص نوجوانوں کو غیرسیاسی بنانےکی حوصلہ افزائی کی۔

جنرل ضیاالحق کے انتقال کے بعد 1988ء میں منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان میں شہروں میں رہنے والے متوسط طبقے کے نوجوان اس بات سے ناواقف تھے کہ پارلیمانی نظام کیسے کام کرتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ اب فیصلہ سازی صرف ایک فرد کے اختیار میں نہیں ہوگی۔

بےنظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد انہیں لوگوں نے شکایات کیں کہ وہ ’فیصلہ سازی میں کمزور‘ ہیں اور پارلیمنٹ پر کافی حد تک منحصر ہیں۔ لہٰذا 1995ء میں بےنظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران پاسبان نامی تنظیم اور سابق آئی ایس آئی چیف حمید گل کی زیر قیادت ایک ’متوسط طبقے کے حامی‘ گروہ نے صدارتی نظام کے لیے لابنگ شروع کردی تھی۔ انہیں عمران خان ایک ایسے شخص لگے جنہیں اس نظام کے تحت اقتدار میں لایا جاسکتا تھا۔ پارلیمانی نظام کو ایک ایسا نظام سمجھا جاتا تھا جو انتہائی پیچیدہ اور پابندیوں سے بھرپور ہونے کی وجہ سے آزاد نہیں تھا۔

پاسبان اور جنرل حمید گل فیصلہ سازی کے اہل ایک ایسے فرد کو برسراقتدار دیکھنا چاہتے تھے جو اپنی مقبولیت کی بنیاد پر صدر منتخب ہوسکیں اور پارلیمنٹ اور آئین جیسی چیزیں ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔

لیکن یہ ان کی کم فہمی تھی کیونکہ صدارتی نظام کے تحت بننے والی حکومت میں بھی پارلیمنٹ، سینیٹ اور مضبوط آئین جیسے عناصر موجود ہوتے ہیں۔ 2014ء میں نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران ایک معروف شوبز شخصیت نے ٹوئٹ کی کہ ’عمران خان کو ملک کا رخ موڑنے کے لیے اختیارات دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں صدارتی نظام چاہیے‘۔

چنانچہ جب کوئی صدارتی نظام کی بات کرتا ہے تو عام طور پر ان لوگوں کا مطلب آمریت کے قریب تر نظام ہوتا ہے جس میں اقتدار بس ایک شخص کے پاس ہو جس کا آئین یا پارلیمنٹ کے تحت احتساب نہیں ہوسکتا, یا پھر ایسی ترامیم کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے حکمران کو آزادی مل جاتی ہے جس سے وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔

عمران خان جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے متعدد مواقع پر اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان کو یک جماعتی ریاست (چین کی طرح) بننے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اور ان کے حامی آزادی کی جتنی زیادہ باتیں کرتے ہیں اتنا ہی یہ لگتا ہے کہ جیسے وہ یک جماعتی سیٹ اپ کی بات کررہے ہیں جس میں تنوع اور اختلافِ رائے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔

جو لوگ آزادی کی تلاش میں ہیں، ان کے نزدیک اختیارات ایک رہنما سے ہوتے ہوئے تمام ریاستی اور حکومتی اداروں میں تقسیم ہونے چاہیئں، مذاکرات اور بحث و مباحثے سے حاصل ہونے والے اتفاقِ رائے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کیونکہ اس سے معاملات سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں یا بدتر حالات میں ان کے رہنما کے فہم و فراست کی بھی نفی ہوسکتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو آزادی کا مطلب پارلیمانی اور آئینی معاملات میں جائے بغیر اختیارات کے استعمال کا نام ہوا۔ اس آزادی کے نتیجے میں عمران خان جیسے مقبول رہنما کو وہ تسکین ملے گی جس کی انہیں طویل عرصے سے تمنا ہے۔ اس سے تیقن کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے جو ایک پراعتماد اور قابل بھروسہ شناخت کو جنم دیتا ہے۔

متوسط طبقہ، ہمارے ملک کے صارف معاشرے کا مرکز ہے۔ تو بنیادی طور پر مذکورہ بالا طاقت، تسکین اور شناخت، صارف برانڈز کی جانب سے فراہم کی جانے والی طاقت، تسکین اور شناخت سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارے متوسط طبقے کے لیے سیاست کی اہمیت بھی مصنوعات کی خریداری جیسی ہے۔ یہاں ایک رہنما پروڈکٹ بن جاتا ہے جس کی برانڈ کے طور پر خوب تشہیر ہوتی ہے اور وہ اپنے صارف یعنی حامیوں کو طاقت، سکون اور شناخت دینے کا وعدہ کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آزادی کا نعرہ ایک اشتہاری سلوگن کی طرح مصنوعی معلوم ہوتا ہے جوکہ ایک تصوراتی آزادی کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب کوئی مارلبرو سگریٹ پیتا ہے تو وہ خود کو بہت پرجوش محسوس کرتا ہے۔ ایسے ہی آئی فون استعمال کرنے والا شخص خود کو تخلیقی لوگوں میں شمار کرنے لگتا ہے اور کوک کی ایک لیٹر والی بوتل خرید کر فرد کو لگتا ہے کہ وہ ایک خوشحال جوائنٹ فیملی سسٹم کا حصہ ہے۔

یہ سب چیزیں صرف تصورات کی دنیا میں ہی ہوسکتی ہیں۔ تصورات نقصان دہ تو نہیں لیکن جب اسے سیاسی اظہار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو معاملات پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک مثالی ریاست کے بجائے بدترین حالات والی ایک بدحال ریاست وجود میں آئے گی۔

اٹلی، جرمنی اور اسپین میں دونوں جنگِ عظیم کے درمیان فاشزم کے عروج کے ساتھ یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔ وہاں ایک جابر ریاست ابھری جس میں برسوں تک لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ جمہوریت اور ایک سے زائد لوگوں کے ہاتھ میں اختیارات جیسے تنگ نظر خیالات سے ’آزاد‘ ہیں۔

عمران خان کی آزادی بھی دراصل یہی ہے۔ اس آزادی کی عملی شکل تو ممکن نظر نہیں آتی لیکن اگر تصور کیا جائے کہ یہ عملی شکل اختیار کرلیتی ہے تو یہ آئین اور پارلیمانی نظام سے آزادی ہوگی اور یہ معاشرے سے الگ اپنے آپ کے گرد گھومتے ایک گروہ کی تشکیل کا باعث بنے گی۔


یہ مضمون 5 مارچ 2023ء کو ڈان کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں